گزشتہ روز حزب اللّٰہ کے اراکین پر ہونے والے سائبر حملوں کے بعد انکشاف ہوا کہ جن پیجرز کے حوالے سے گمان کیا جاتا تھا کہ اب اس ٹیکنالوجی کا استعمال ختم ہو چکا ہے، وہ اب بھی اس گروہ کے اراکین کے زیرِ استعمال ہے۔
حزب اللّٰہ کے سربراہ حسن نصر اللّٰہ نے پہلے اپنے ارکان کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے ساتھ موبائل فون یا اس طرح کی کوئی ڈیوائس نہ رکھیں کیونکہ اسرائیلی گروپ ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے انہیں استعمال کر کے نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی گروپ ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان آلات کی مدد سے اراکین پر حملہ بھی کر سکتا ہے۔
اس کے نتیجے میں ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ کے اراکین رابطے کے لیے اس پرانی ٹیکنالوجی ’پیجرز‘ کا استعمال کر رہے تھے۔
اس حملے کے بعد امریکی جامعہ سے منسلک انسٹریکٹر نکولس ریس نے خبر ایجنسی کو بتایا ہے کہ پیجرز کے برعکس اسمارٹ فونز کے استعمال سے پکڑے جانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، تاہم حالیہ حملے کے بعد حزب اللّٰہ اپنی مواصلاتی حکمتِ عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امکان ہے کہ منگل کو ہونے والے دھماکوں کے بعد زندہ بچ جانے والے حزب اللّٰہ کے اراکین ناصرف پیجرز بلکہ موبائل فونز، ٹیبلیٹ یا دیگر الیکٹرانک آلات کا استعمال بھی ترک کر دیں گے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے گزشتہ روز لبنان کے مخلتف علاقوں میں حزب اللّٰہ ارکان کے زیرِ استعمال پیجرز میں ایک ساتھ دھماکے کیے گئے ہیں جن میں 9 افرد شہید جبکہ 3 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ کا کہنا ہے کہ مذکورہ پیجرز حزب اللّٰہ کے متعدد اراکین کے زیرِ استعمال تھے اور ان کے پھٹنے سے اس کے 2 جنگجو جاں بحق ہوئے ہیں، جس کا ذمے دار اسرائیل ہے۔
حزب اللّٰہ کا کہنا ہے کہ دھماکوں سے متعلق تمام حقائق اور معلومات کی جانچ کے بعد اسرائیل کو مکمل ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔
حزب اللّٰہ نے اسرائیل پر ’مجرمانہ جارحیت‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے انتقامی کارروائی کا عندیہ بھی دیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق حزب اللّٰہ کی جانب سے چند ماہ قبل درآمد کیے گئے 5 ہزار پیجرز کے اندر اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے دھماکہ خیز مواد نصب کیا تھا۔
میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ پیجرز تائیوان کی ایک کمپنی سے خریدے گئے تھے، تاہم مذکورہ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ان ڈیوائسز کو تیار نہیں کرتے بلکہ ایک یورپی فرم نے انہیں اپنے برانڈ کا نام استعمال کرنے کے حقوق دیے ہیں۔
لبنانی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ آلات کو موساد نے ’پروڈکشن کی سطح پر‘ تبدیل کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیوائسز کے اندر ایک دھماکا خیز مواد موجود تھا جو مخصوص کوڈ ملتے ہی متحرک ہو گیا۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ دھماکا خیز مواد کے بارے میں معلوم کرنا کافی مشکل ہے، کسی بھی ڈیوائس یا اسکینر سے اس کا پتہ لگانا ممکن نہیں۔
ذرائع نے یہ بھی کہا ہے کہ 3000 پیجرز گزشتہ روز اس وقت ایک ساتھ دھماکے سے پھٹ گئے جب انہیں کوڈ کے ذریعے پیغام موصول ہوا۔