کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما کامران مرتضیٰ نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا موقف ہے آئینی عدالت سپریم کورٹ سے اوپر کا فورم نہ بنائیں کسی کو رکھنے یا نکالنے سے متعلق ترامیم نہیں ہونی چاہئیں، ہم اپوزیشن میں ہیں لیکن کسی اتحاد کا حصہ نہیں ہیں، کوئی سمجھتا ہے ہم اس کے ساتھ سڑکوں پر ہوں گے تو یہ درست نہیں ہے،کوئی کہے ہم حکومت میں ہوں گے تو یہ بھی درست نہیں ہے، ن لیگ کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ بہتر ہوتا مولانا ان نکات کی وضاحت کردیتے جن کو وہ خیانت سمجھتے ہیں، ہم شاید معاملات کو پوری طرح طے کرنے میں انصاف نہیں کرسکے، ہمیں بشمول پیپلز پارٹی یہ توقع تھی کہ شاید مولانا فضل الرحمٰن پوری طرح آن بورڈ ہیں،میزبان محمد جنید نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم کا معاملہ الجھ گیا ہے، حکومت کی اس ناکامی کے پیچھے اصل کردار مولانا فضل الرحمٰن کا تھا جو حکومت اور پیپلز پارٹی کی مسلسل کوششوں کے باوجود ووٹ دینے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہمیں جو پہلا مسودہ دیا گیا وہ ووٹنگ سے پہلے آدھی رات کو دیا گیا، اس کے تھوڑی دیر بعد ہی بلاول بھٹو تشریف لے آئے، بلاول بھٹو کے سامنے تحفظات کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا مجھے بھی تحفظات تھے لیکن مجبوری ہے، ہم نے بلاول سے کہا آپ کی مجبوری ہوگی ہماری مجبوری نہیں ہے، آئینی ترامیم کا مسودہ دیکھ کر ہمیں لگا کہ یہ تو ہمارے گلے پڑجائے گا، حکومت سے کہا کہ آپ کہتے تھے معصومانہ بات کرنے جارہے ہیں یہ تو معصومانہ نہیں ہے، اس کے بعد شاید ہم اپنے گھروں کو واپس نہ جاسکیں، بطور سیاسی پارٹی ہمارے لیے لوگوں میں جانا مشکل ہوجائے گا، ہم نے کہا کہ پارٹی مشاورت اور عوام کے سامنے لائے بغیر کیسے مسودے پر اتفاق کرسکتے ہیں۔ کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق بنیادی انسانی حقوق سے متعلق قانون سازی کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔