• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتظامیہ مسجد عملے کے مشاہرے میں اضافہ کرسکتی ہے

تفہیم المسائل

سوال: جامع مسجد نور حنفیہ ،واہ کینٹ کے امام صاحب کافی عرصہ مسجد کی خدمت کرتے رہے ، ضعیف العمری کے سبب اپنے ایک بیٹے کو بطور امام مقرر کردیا، جو اس وقت امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ خطابت اور ناظرہ قرآن مجید پڑھانے کے لیے علیحدہ استاذ مقرر ہیں۔ 

امام صاحب صرف نمازیں پڑھاتے ہیں اور مسجد کے مکان میں اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں ، اُن کے ہمراہ ان کے دوسرے شادی شدہ بھائی بھی اپنی فیملی کے ساتھ مسجد کے مکان میں ہی رہتے ہیں۔ تمام یوٹیلیٹی بلز مسجد اداکرتی ہے ، اس صورت میں امام صاحب کے بھائی کاان کے ساتھ فیملی رہائش میں رہنا اور بجلی ،گیس وغیرہ استعمال کرنا کیساہے ؟،( مسجد کمیٹی نورحنفیہ ، واہ کینٹ)

جواب: مسجد کے عملے ( امام ، مؤذّن اور خادم) کی رہائش ضروریاتِ مسجد میں سے ہے،کیونکہ یہ کُل وقتی اور اقامتی مناصب ہیں۔ ہمارے عرف میں امام مسجد کی رہائش گاہ کا بجلی ، گیس اور پانی کا بل بھی امام مسجد کو فراہم کردہ سہولتوں میں شامل ہوتا ہے ،لہٰذا یہ بھی مسجد کے مصالح میں شمار ہوتا ہے، اس لیے مسجد کے عمومی چندے سے یہ اخراجات کرنا جائز ہیں۔

مساجد میں باصلاحیت افراد کاتقرر اور ان کی علمی قابلیت وصلاحیت، معاشی ضروریات اور ضروریات زندگی کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو مدنظر رکھ کر ان کے لیے معقول وظیفہ مقرر کرنا مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

اَئمۂ مساجد، موذنین، مدرّسین اور خدام کے وظائف میں وقتا فوقتاً مہنگائی کی شرح اور ان کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے مناسب شرح کے ساتھ اضافہ بھی ضروری ہے، مسجد انتظامیہ اپنے صوابدیدی اختیارات سے مسجد عملے کے مشاہرہ میں اضافہ کرسکتی ہے، اسی طرح وسائل موجود ہوں تو سالانہ اضافی مشاہرہ بھی دے سکتی ہے ، تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے: ترجمہ:’’ وقف سے امام کی جو تنخواہ مقرر ہے ،اگر وہ ناکافی ہے اور امام مُتقی عالم ہے ، تو قاضی اس میں اضافہ کرسکتا ہے ،(جلد13، ص:659، دمشق) ‘‘۔ اب اسلامی حکومت تو ہے نہیں ، اس لیے قاضی یا حاکم کی جگہ مُتولّی ِ وقف نے لے لی ہے اوربعض جگہ مساجد کی انتظامی کمیٹی ہوتی ہے ۔

مسجد کی رہائش سے استفادے کا حق امام صاحب اور اُن کے اہلِ خانہ کو حاصل ہے ،بھائی کو ساتھ رکھنے کی سہولت مسجد انتظامیہ کی اجازت پر موقوف ہے ، اگر وہ اس کی اجازت دیں تو درست ہوگا ،ورنہ یہ اُن کا استحقاق نہیں ہے۔ اس کا ایک حل یہ نکالاجاسکتا ہے کہ امام صاحب کے بھائی کے لیے ایک رعایتی کرایہ مقررکردیاجائے ،جس سے بجلی ،گیس کے بلوں میں کچھ سہولت ہوجائے ،کیونکہ ان کے بھائی کو الگ بھی کردیاجائے تو پورا مکان پھر بھی امام صاحب کی تحویل ہی میں رہے گا ، مسجد پر یوٹیلیٹی بلوں کا شاید کچھ اضافی بوجھ پڑجاتا ہو،واللہ اعلم بالصواب۔