مولانا سفیان علی فاروقی
ایک مسلمان اس وقت تک کامل مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک اس کاعشقِ رسولؐ کامل نہ ہو، یعنی آپﷺ کی ہر ہر ادا، ہرہر قول اور ہرہر عمل سے سچا عشق نہ ہو ، زندگی کے ہر معاملے میں سب سے پہلے نبوی طرزِ عمل کو ڈھونڈے، جی جان سے اس پر عمل کی کوشش کرے، احکاماتِ نبوی کے مطابق زندگی کے شب و روز گزارنے کی جدوجہد کرے، اپنے معاملات، معاشرت، لین دین، خوشی و غمی ہر چیز احکاماتِ نبوی ؐ کے تابع کردے، یہی ہر مسلمان سے تقاضا ہے، یہی اس کی زندگی کا منہج و مقصد ہے، اسی چیز پر زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ:’’کسی مؤمن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول( ﷺ ) کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے اپنے معاملے میں اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ ورسولؐ کی نافرمانی کرے، وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔‘‘(سورۃ الاحزاب) سورۃ الحشرمیں ارشادِ الٰہی ہے :’’جو کچھ رسول تمہیں دیں، وہ لے لو اور جس چیز سے تمہیں روک دیں، اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، وہ شدید عذاب دینے والا ہے۔‘‘
آپ ﷺارشاد فرماتے ہیں :’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے۔‘‘(مشکوٰۃ )
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں،وہ عشق ہی کیا جس میں ادب آداب کا لحاظ نہ ہو، چنانچہ تاریخ کی کتابوں میں ایک مشہور واقعہ درج ہے: بادشاہ ناصر الدین محمود کے ایک خاص مصاحب کا نام محمد تھا، بادشاہ اس کو اسی نام سے پکارا کرتا تھا، ایک دن خلافِ معمول اسے ’’تاج الدین‘‘کہہ کر آواز دی، وہ تعمیلِ حکم میں حاضر تو ہوگیا، لیکن بعد میں گھر جا کر تین دن تک نہیں آیا، بادشاہ نے بلاوا بھیجا، تین روز تک غائب رہنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا : آپ ہمیشہ مجھے ’’محمد‘‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے، لیکن اس دن آپ نے ’’تاج الدین‘‘ کہہ کر پکارا، میں سمجھا میرے متعلق آپ کے دل میں کوئی خلش پیدا ہوگئی ہے، اس لیے تین دن تک حاضرِ خدمت نہیں ہوا، ناصر الدین نے کہا: ’’واللہ! میرے دل میں آپ کے متعلق کسی قسم کی کوئی خلش نہیں، تاج الدین کے نام سے تو میں نے اس لیے پکارا تھا کہ اس دن میرا وضو نہیں تھا اور مجھے ’’محمد‘‘کا مقدس نام بغیر وضو کے لینا مناسب معلوم نہیں ہوا۔‘‘
اسی طرح ہمارے محدثین کا الحمدللہ معمول رہا ہے کہ جب بھی کوئی حدیث نقل کرنے لگتے ہیں تو باقاعدہ اہتمام کے ساتھ آداب کے ساتھ باوضو ہو کر حدیث کو نقل کرتے ہیں، ہم نے اپنے بڑوں کو دیکھا ہے کہ وہ کسی ایسی بات کو نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب نہیں کرتے جس کے متعلق انہیں علم نہ ہو کہ واقعی آپ ﷺ نے ہی فرمائی ہے، کیونکہ کوئی بھی ایسی بات جو آپﷺ نے نہ فرمائی ہو اسے آپ ﷺ کی طرف منسوب کرنا انتہا درجے کی بے ادبی ہے، یہ بھی انتہادرجے کی بے ادبی ہے کہ کسی ایسے شخص کو گستاخِ رسول قرار دینا جس نے گستاخی نہ کی ہو۔
یہ بھی انتہا درجے کی بے ادبی ہے کہ آپﷺ کانام نامی آئے اور ہم درود و سلام نہ پڑھیں، یہ بھی بے ادبی ہے کہ ایک معاملے میں نبی کریم ﷺ کا طرزِ عمل موجود ہو اور ہم اسے چھوڑ کر کوئی دوسرا طرزِ عمل اختیار کریں ۔ادب یہ ہے کہ اپنی سوچ، فکر، فہم، رسم و رواج سب کچھ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے تابع کرلیں، ساری محبتیں اس ایک محبت پر قربان کردیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دنیا کی تمام چیزوں کی محبت کو رسول اللہ ﷺ کی محبت پر قربان کردیاتھا، آپﷺ کی محبت میں ماں باپ، بہن بھا ئی، رشتے دار قربان کر دیے، غرضیکہ سب کچھ قربان کر دیا، لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کے دامن کو نہ چھوڑا۔ حضرت ابو سفیان ؓحالتِ کفر میں اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے آتے ہیں اور کملی والےآقاؐ کے مقدس بستر پر بیٹھنے کی کو شش کرتے ہیں تو بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا یک دم بو لتی ہیں: ’’ابا جان! ذرا ٹھہریئے ‘‘ باپ رُک گیا۔ بیٹی کیا بات ہے ؟ بیٹی نے جلدی سے بستر لپیٹ دیا، حضرت ابو سفیان ؓ بولے: کیا یہ بستر میری شان کے لا ئق نہیں؟ یا میں اس بستر پر بیٹھنے کے لائق نہیں ہوں ؟ بیٹی نے کہا: یہ ’’محمد رسول اللہ ﷺ کا پاک بستر ہے اور آپ اس وقت کفر وشرک کے باعث ناپاک ہیں۔‘‘ ذرا اندا زہ لگا ئیے کہ سیّدہ ام حبیبہ ؓ نے اپنے باپ کی ذرا پروا نہیں کی اور مصطفیٰ ﷺ کی محبت میں اپنے باپ کو بھی رد کر دیا ۔
عاشق کے وجود کا ظاہری حلیہ اور اس کے اعمال میں جھلکتا باطنی عشق اس کے عاشقِ رسول ﷺ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہو، اسے اپنے عشق کے اظہار کے لیے عاشقِ رسول ﷺ ہونے کے نعرے نہ لگانے پڑیں، بلکہ اس کے اعمال چیخ چیخ کر دنیا کو بتادیں کہ یہ ہے سچا عاشقِ رسول ﷺ۔صحابہ کرامؓ نے یہی کیا تھا، آیئے! ان کے عشق کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں :
موسیٰ بن عقبہؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمرؓ کو دیکھاکہ وہ دورانِ سفر راستے میں بعض مقامات تلاش کرتے تھے اور وہاں نماز پڑھتے تھے، کیونکہ انہوں نے اپنے والد عبداللہؓ کو اور انہوں نے اپنے والد عمرؓ کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا اور حضرت عمر ؓوہاں اس لیے نماز پڑھتے تھے کہ انہوں نے آنحضورﷺ کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ (بخاری:۴۸۳)
حضرت علی بن ابی طالبؓ سواری پر سوار ہوئے تو دعائے مسنون پڑھنے کے بعد مسکرانے لگے۔ کسی نے پوچھا: امیرالمومنین! مسکرانے کی کیا و جہ ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا تھا کہ آپﷺ نے سواری پرسوار ہوکر اسی طرح دعا پڑھی، پھر آپﷺ مسکرائے تھے، لہٰذا میں بھی حضورﷺ کی اتباع میں مسکرایا ہوں۔ (سنن ابوداؤد؛۲۶۰۲)
حضرت انسؓ نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کو کدو پسند ہیں، تو وہ بھی کدّو پسند کرنے لگے۔ (مسنداحمد:۳/۱۷۷) ایک بار آپﷺ نے سرکہ کے بارے میں فرمایا کہ: سرکہ تو اچھا سالن ہے تو حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ تب سے مجھے سرکے سے محبت ہوگئی ہے۔ (دارمی:۲۱۸۱)
ایک بار ایک صحابیؓ کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی آپ ﷺنے دیکھی تو آپﷺ نے اس کے ہاتھ سے اُتار کر دور پھینک دی، گویا آپﷺ نے اظہارِ ناراضی کیا۔ آپ ﷺکے تشریف لے جانے پر کسی نے کہا کہ اس کو اُٹھا لو اور بیچ کر فائدہ حاصل کرلو (کیونکہ حضورﷺنے صرف پہننے سے منع فرمایا تھا) مگر انہوں نے کہا: خدا کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا، کیونکہ رسول اللہ ﷺنے اسے پھینک دیا ہے۔ (صحیح مسلم:۲۰۹۰)
کچھ صحابہؓ کو بیعت کی شرائط میں یہ نصیحت بھی فرمائی : ’’لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔‘‘ تو انہوں نے اس شدت سے اس کی پابندی کی کہ اگر اونٹنی پر سوار کہیں جارہے ہوتے اور ہاتھ سے لگام گر جاتی تو اونٹنی کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے اس کو اٹھاتے تھے اور کسی آنے جانے والے سے نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر دے دو۔ (مسنداحمد: ۵/۲۷۷)
سرورِ کا ئنات ﷺ ایک دن مرادِ رسول سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے پو چھتے ہیں: ’’ اے عمر ؓ ! تم میرے ساتھ کتنا عشق ومحبت کرتے ہو؟ ‘‘ فا روقِ اعظم ؓ نے فرمایا: ’’اپنے ماں باپ سے، اپنی اولا دسے، اپنے رشتہ داروں سے، اپنے دوستوں سے، بلکہ کل کا ئنات سے زیادہ آپ سے عشق و محبت رکھتا ہوں اور عزیز سمجھتا ہوں بجز اپنی جان کے۔‘‘ کملی والے آقا ﷺ نے فرمایا: ’’ اے عمرؓ! اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں مجھ محمد ؐ کی جان ہے اس وقت تک کوئی شخص مو من نہیں ہو سکتا جب تک مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ سمجھے۔ ‘‘ فاروقِ اعظمؓ نے کہا: ’’اب آپ ؐ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز و محبوب ہیں۔ ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ اے عمرؓ! اب تم مومن ہو ۔
صحابہ کرامؓ کا معاملہ بھی عجیب تھا، ان کی محبت کا دارومدار بس عشقِ رسول ﷺ تھا، اگر کوئی آپ ﷺ پر ایمان نہیں لایا تو پھر خونی رشتے بھی بے معنی تھے اور اگر کوئی ایمان لایا اور خونی رشتہ نہیں بھی تھا تو اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا۔ واقعی تاریخ انسانیت میں ایسا انقلاب نہ پہلے آیا اور نہ کبھی آئے گا۔
صحابہ کرامؓ نے اپنا سب کچھ نبی کریم ﷺپر لٹا دیا تو پھر اللہ پاک نے بھی اپنی تمام نعمتوں کے دروازے ان پر کھول دئیے، ان کے قدموں میں سلطنتیں تسبیح کے دانوں کی طرح گریں ، دنیا کے خزانے مدینہ کی گلیوں میں بکھرنے لگے، دنیا کی قیادت و سعادت ان پر فخر کرنے لگی، ان کے احکامات پھر چرند، پرند، ابحار، اشجار سب ہی نے مانے اور جب تک مسلمان نبی کریمﷺ کے احکامات پر عمل پیرا رہے عشقِ رسول ﷺ کو حرزِ جاں بناتے رہے، اس وقت تک ساری دنیا ان کے در کی دریوزہ گر رہی اور جیسے ہی انہوں نے عشقِ رسول ﷺ سے منہ موڑا، اللہ پاک کی تمام نعمتوں نے مسلمانوں سے منہ موڑ لیا۔