تحریر: اکرم قائم خانی…لندن
لندن نے ایک بار پھر تاریخ رقم کر دی، ساؤتھ ایشین فیسٹیول برطانیہ کی ثقافتی تاریخ کا سنگِ میل بنے گا، میں فیسٹیول میں بھرپور شرکت کرنے والے لوگوں کا تہ دل سے شکر گذار ہوں اور وعدہ کرتاہوں ہمارا فیسٹیول ہر سال ہو گا اوراس کے معیار کو بہتر سے بہتر بنایا جائے گا، اس میں اس سال مشاعرہ اور ڈانس کی کمی تھی، یہ آئندہ شامل پروگرام ہوگا۔ مجھے جو شاندار فیڈ بیک ملا ہے اس نے میرے دل کو مزید جوان کر دیا ہے اور میں اور میرے ساتھی 2025ء کے فیسٹیول کی تیاری کا کام آج ہی سے شروع کر رہے ہیں، ساؤتھ ایشین لوگوں کے درمیان ہم آہنگی پیار اور احترام سے متعلق جو سیشن ہوئے ان کا حال تو لکھنے والے لکھیں گے میں تو بس یہ کہہ سکتا ہوں اسٹیج اور حاضرین کے درمیان ایسا کنکشن نظر آیا جو اس سے قبل دیکھنے کو نہیں ملا اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ لوگ مکالمہ چاہتے ہیں اور اپنے اصل ورثے کی تلاش میں ہیں اور ’’وائس آف ساؤتھ ایشین آرٹ اینڈ لٹریچر لندن‘‘ (وصال) اس کام میں ان کی مدد کرے گا۔ فیسٹیول کا آغاز انجم رضا اور ان کی صاحبزادی کے ویلکم خطاب سے ہوا۔ پیاری ماریہ رضا نے نئی نسل کی نمائندگی کی اور یہ پیغام دیا کہ امن و آشتی کا پیغام جاری رہے گا۔ پاکستان کا فخر اور ہردلعزیز شاعر افتخار عارف جو علالت کے باوجود لندن تشریف لائے ان کی آمد نے فیسٹیول کو چار چاند لگا دیے۔ ان کی تقریر نے وصال کی ضرورت اور اس کے اغراض و مقاصد کو کھل کر بیان کر دیا۔ امریکہ میں مقیم نثار اختر مرحوم کے صاحبزادے سلمان اختر جو ایک نامور شاعر محقق اور دانشور ہیں، فیسٹیول میں شریک ہوئے اور پرویز عالم کے ساتھ باکمال گفتگو کی۔ پرویز عالم ریڈیو اور الیکٹرانک میڈیا کی دنیا کا بڑا نام ہیں اور ہم ان کے شکر گذار ہیں کہ ان کے ذریعے ہم سلمان اختر کو کو فیسٹیول میں شریک کر سکے، یہاں میں آپ کو یہ گوش گذار کردوں کہ اس فیسٹیول کو میر تقی میر کے تین سوسالہ، بنگلہ دیش کے قوی انقلابی شاعر قاضی نظر اسلام کے ایک سو پچیسویں جب کہ پاکستان کے نامور صحافی انجمن ترقی پسند پاکستان کے سیکرٹری جنرل حمید اختر کے صد سالہ جشن ولادت سے منسوب کیا گیا تھا، اس فیسٹیول کی شان بڑھانے میں حمید اختر مرحوم کی صاحبزادی صبا حمید اپنے بھائی بہن اور بہنوئی کے ہمراہ شریک ہوئیں جس کے لئے وصال ان کا انتہای شکر گذار ہے ،بخدا حمید اختر کو یاد کرکے ہم نے اپنا تاریخی فریضہ ادا کیا ہے اور ثابت کیا ہے ہمارے جن بزرگوں نے اس خطے کے لوگوں کیلئے جدوجہد کی ہے خواہ آج ان کا تعلق پاکستان ،ہندوستان ،نیپال یا بنگلہ دیش سے ہو ہم انھیں ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔ حارث خلیق ،افتخار عارف اور صبا حمید سے ہم کلام ہوئے اور افتخار بھائی نے ایسی ایسی تاریخی باتیں اور واقعات حمید اختر سے متعلق بتائے کہ صبا حمید اور ان کے دیگر گھر والوں کی آنکھیں بھر آئیں، حارث خلیق کے ایکُ سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ مجھے میرے والد کی خوشبو آج اجتماع سے آئی، میں آج اپنے سگے اور سچے رشتہ داروں کے درمیان ہوں اس موقع پر حمید اختر کے صدسالہ جشن ولادت کا کیک کاٹا گیا، فیسٹیول میں سندھ سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے معروف دانشور جامی چانڈیو نے اپنی گفتگو سے ہمیں ان کڑیوں کا پتہ دیا جو انڈس ویلی سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو جوڑتی ہیں ان کی اور سوواس یونیورسٹی کی پروفیسر میڈم فرنچسکا کی عروج آصف سے خطے کی زبانوں سے متعلق بات چیت نے اس فیسٹیول کے لٹریری معیار اور علمی گہرائی کو مزید بلندیوں تک پہنچا دیا دوسری جانب ہمارے خطے کے مستند نوجوان دانشور سیف محمود نے خدا سخن میر تقی میر اور نذر اسلام کے بارے میں مکالہ پڑھا اور ساتھ ساتھ ڈاکومینٹری کے ذریعے حاضریاں کو دونوں شاعروں کی زندگی اور عظمتوں سے روشناس کرایا اور خوب داد پائی، ساوتھ ایشیا کے چند گنے چنے بے باک صحافیوں میں ایک بڑا نام مظہر عباس کا ہے جو پورے خطے کے لوگوں کے دل میں گھر کئے ہوئے ہیں ان کی ایک جھلک دیکھنے اور بات سونے کے لئے لوگ بے تاب تھے اور جب ان سے ہم کلام ہوں۔ بی بی سی کے نامور براڈکاسٹر جاوید سومرو تو آپ خود ہی اس گفتگو اعلیٰ معیار کا اندازہ لگائیں دور جدید کے شاعر ڈاکٹر رضی محمد کی کتاب “بوڑھے برگد کی آخری گفتگو” کا اجرا افتخار عارف کے مبارک ہاتھوں ہوا، رضی محمد نے اپنا کلام حاضرین کو سنایا اور خوب داد پائی، ڈاکٹر عمر دراز، ڈاکٹر باری خان اور ان کی بیگم کے درمیان ہونی والی گفتگو نے حاضرین کو حیران کر دیا اور انہیں پتہ چلا کے انڈس ہسپتال غریبوں اور ضرورت مندوں کے علاج کے لئے کس قدر کام کررہا ہے اور مجھے امید ہے عمر دراز کی اس کوشش کے نتیجے میں مزید لوگ ہسپتال کی مدد کو آگے آئیں گے۔ فیسٹیول کے دوسرے حصے میں میں موسیقی کے صوفی رنگ بکھیرے گئے علاقائی گیت گائے گئے، ڈھول کی تھاپ پر لوگ رقص کرتے اور جھومتے رہے، زبردست فوک سنگر شکیل اعوان اور صنم ماروی نے حاضرین کو مست کر دیا جب کہ نوجوان بنگلہ دیشی بینڈ ’’سر یل‘‘ نے اسٹنگ پرفارمنس پیش کی۔ ہمارے مختلف سیشنز کی نازیہ میمن، سمعیہ علی نے میزبانی کی جب کہ اکرم قائم خانی نے شکریہ ادا کیا۔ یوسف ابراہیم نے اپنی آواز اور لہجے سے ایک بار پھر حاضرین کو حیران کر دیا اور پورے پروگرام میں ان کی آواز کا سحر لوگوں پر طاری رہا، میں فیسٹیول میں خصوصی شرکت کیلئے پاکستان سے آنے والے شفیع بلوچ، میئر برینٹ طارق ڈار، سابق میئر بارکنگ ڈاکٹر غفور عزیز، فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر افضل بٹ، کشمیر کے سابق وزیر ممتاز اینکر مشتاق منہاس، کمانڈر برٹش ایمپائر مشتاق لاشاری، میاں سیلم، ایوب اولیا، ڈاکٹر علی گل، معروف وکیل انس خان، بشریٰ انس، ڈاکٹر عامر مختار، ڈاکٹر رحمٰن خان، سعید سومرو، مسٹر اینڈ مسز شاہد ملک، سیما جی، تسنیم، عابدہ، فخر خواجہ اور ان کی سہیلیاں، امتیاز خان، پلوشہ بنگش، خالد ملک، ارشد علی، اشتیاق ملک، عرفان بھائی، میرا کوشک، طارق بھائی، حبیب جان اور دیگر شامل ہیں، میں یہاں اپنے میڈیا پارٹنر جیو ٹیلی ویژن کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں۔