مکافات نگر، شریف محلہ، ساتواں آسمان
میرے پیارے عملیت پسند بیٹے شہباز!
السلام علیکم! عرصہ دراز سے تم سے رابطہ نہیں ہوا۔ جب سے تم 8 فروری کے بعد سے دوبارہ وزیر اعظم بنے ہو میں مسلسل ہرلمحے تمہاری کارکردگی اور کامیابی پر پریشان رہتا ہوں، حالات خراب ہوں تو دل کڑھتا ہے اور جب ہوائیں اچھی خبریں لاتی ہیں تو دل خوش ہوتا ہے۔ سب سے پہلے مبارک بادکہ یہ مہینہ بہت اچھاگیا ہے تمہاری حکومت کا نظام چل پڑا ہے۔ آئی ایم ایف کا قرض مل جانا بہت بڑا مثبت پہلو ہے۔ اقوام متحدہ میں تمہاری جاندار تقریر نے مخالفوں کے منہ بند کردیئے ہیں اس تقریر کے فوراً بعد جنرل ضیاء الحق اور کے ایم عارف ہمارے محلے مبارکباد دینے آ پہنچے،میں نے کوئی زیادہ لفٹ نہیں کروائی مگر پھر بھی وہ دیر تک بیٹھ کر شریف خاندان کے قصیدے پڑھتے رہے۔ انہی کی زبانی اس بات کی تصدیق بھی ہوئی کہ فوج کے ساتھ تمہارا رابطہ اور تعلق مضبوط جا رہا ہے، ملائشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم کا دورہ پاکستان بھی کمال کی بات ہے۔ سعودی عرب میں تمہاری انور ابراہیم کے ساتھ ملاقات میں یہ برف پگھلی تھی، انور ابراہیم کا پاکستان سے پرانا تعلق ہے اسے شالامار باغ کی خوبصورتی اور کراچی کی کتابوں کی دکانیں سب یاد ہیں، اس کی بیٹی کی شادی بھی ایک پختون نژاد ملائشی نوجوان سے ہوئی ہے جو ہر سال پشاور آتا رہتا ہے۔ انور ابراہیم اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے بھی پرانا تعلق رکھتے ہیں لیاقت بلوچ ان کی میزبانی کرتے رہے ہیں، امیر العظیم ان کے پاس ملائشیا جاتے رہے ہیں اسی تعلق کی خاطر اس نے جماعت اسلامی کے وفد سے ملاقات رکھی مگر انہیں ہوٹل میں روک دیا گیا اوپر جانے کی اجازت نہ دی گئی مجبوراً خود انور ابراہیم نے لابی میں آ کر اپنے پرانے تعلق داروں سے ملاقات کی۔ یہ طریقہ بالکل نامناسب تھا انکوائری کرائو کس نے یہ کام کیا ہے۔ انور ابراہیم نے چاول اور حلال گوشت ملائشیا منگوانے کا جرأت مندانہ اعلان کیا ہے اس سے پاکستان کی معاشی مدد ہوگی۔ یہ مہینہ تمہارے لئے یوں بھی اچھا ہے کہ سعودی شہزادہ سعودی سرمایہ کاروں کے ساتھ پاکستان آ رہا ہے پھر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی وجہ سے کئی برسوں کے وقفے کے بعد 7،8 سربراہِ مملکت اکٹھے اسلام آباد آرہے ہیں، بھارتی وزیر خارجہ کا آنا بھی بہت بڑی خبر ہے۔ دوسری طرف 63 اے کے فیصلے نے سیاسی طور پر تحریک انصاف کی امیدوں پر اَوس ڈال دی ہے گویا سیاست ، خارجہ پالیسی اور فوج کے تعاون کے حوالے سے تمہارا کلّہ مضبوط ہوا ہے۔مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ چینی صدر شی سے بھی تمہارا کافی مضبوط رشتہ بن گیا ہے اگرچہ وہ بڑے زیرک اور محتاط ہیں لیکن تم نے انہیں جب اس بات کی داد دی کہ ہنری کسنجر کو ریٹائر ہونے کے باوجود آپ نے عزت دی اور چین امریکہ تعلقات بنانے میں اس کی خدمات کو یاد رکھا اور پھر جب تم نے صدر شی کو بتایا کہ ہمارے والد میاں شریف ہمیشہ ہمیں نصیحت کرتے تھے کہ عملی زندگی سے ریٹائر ہونے والے محسنوں کو یاد رکھنا چاہیے ،صدر شی تمہاری اس بات پر چونکے اور کہا کہ میں ایک دیہاتی ہوں میرے والد نےبھی مجھے یہی سبق دیا تھا اور پھر تمہیں اپنے گائوں کی سیر کروائی اور اب تمہارے لئے ان کی ذاتی گرمجوشی نظر آتی ہے۔ تم نے اچھی مثال دی ،میں نے تو بریگیڈیئر قیوم اور جنرل جیلانی کا یہ احسان کبھی نہیں بھلایا کہ انہوں نے نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مگر اب مجھے اپنے خاندان کے حوالے سے عجیب و غریب خبریں مل رہی ہیں، لگتا ہے ساری روایات بھلا دی گئی ہیں، وہ محسن جس نے تحریک عدم اعتماد میں سب سے متحرک کردار ادا کیا، نواز شریف اور فوج کے مذاکرات کروائے ، جنرل عاصم منیر کے حوالے سے نواز شریف کے ساتھ سات ملاقاتیں کیں پھر پی ٹی آئی کا فرنٹ فٹ پر مقابلہ کیا۔ اتنا بڑا محسن اور اس کی وزیر اعلیٰ پنجا ب اور نواز شریف سے ایک بھی باقاعدہ ملاقات تک نہیں ہوئی، خدا کا غضب یہ ہم کس روایت پر چل پڑے ہیں؟ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اگرچہ چچا وزیر اعظم اور بھتیجی وزیر اعلیٰ میں ذاتی محبت اور گرمجوشی بہت ہے لیکن وفاقی اور پنجاب حکومت میں کوئی موثر رابطہ نہیں ہے۔ اسلام آباد والے دارلخلافے کی حدود تک محدود ہیں اور پنجاب والے مرکز کو غیر علاقہ سمجھ رہے ہیں، وزیر اعظم کے نیچے کا سٹاف ایک دن یہ بحث کر رہا تھا کہ وزیر اعظم نے وکلا کے سو ڈیڑھ سو کے وفد سے ملنا ہے تو لاہور میں کونسی جگہ مناسب ہے؟ مسلم لیگ کے دفتر میں ملاقات کا رنگ سیاسی ہوجاتا لیکن سٹاف کی اتنی بھی جرأت نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی عملداری میں موجود کسی سرکاری عمارت کو استعمال میں لا سکے۔ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کا نہ اوپر کوئی پرسان حال ہے نہ نیچے ہی انہیں کوئی رسائی حاصل ہے،کہا جا رہا ہے سب کچھ میرٹ پر ہوگامیرٹ کا عرفِ عام میں مطلب یہ ہوتا ہے کہ اور کسی کی مرضی نہیں چلے گی بس وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی مرضی چلے گی وہ سیاہ کریں یا سفید اسے ہی سیاسی زبان میں میرٹ کہا جاتا ہے۔ مجھے حمزہ کے دوستوں نے بتایا کہ پنجاب میں اس کی کوئی شنوائی نہیں، اس نے سالہا سال مسلم لیگ کی تنظیم کو چلایا ہے اسے نولفٹ کہہ کر گھر بٹھانا سیاسی لحاظ سے سراسر غلط ہے۔ مشاورت جو ہمارے خاندان کا خاصہ تھا اس کا نوجوان نسل میں مکمل فقدان نظر آتا ہے۔
پیارے بیٹے!!
میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد تم نے بڑے بھائی کو والد جیسا مقام دیا ہوا ہے نواز یقیناً اس کا اہل بھی ہے اس کا دل بہت بڑا ہے لیکن اس نے صدمات اور حادثات کے روگ دل کو لگا لئے ہیں وہ پارٹی کا سربراہ بھی ہے اور غیر متحرک اور مسلسل خاموش بھی۔ یہ دوعملی نونی سیاست کو تباہ کر رہی ہے۔ شہباز بیٹے تم تو ویسے بھی سیاست کرتے ہی نہیں نہ سیاست پر بولتے ہو، نہ سیاسی جلسوں سے خطاب کرتے ہو ، نہ پنجاب میں کہیں دورہ کرتے ہو؟ تم سیاست نہیں کر رہے بس نوکری کر رہے ہو، میں نے تم بھائیوں کو ہمیشہ سمجھایا کہ مہنگائی حکومتوں کیلئے زہر قاتل ہوتی ہے تمہاری حکومت کیلئے سب سے بڑا مسئلہ مہنگی بجلی ہے جب تک تم دن رات لگا کر یہ مسئلہ حل نہیں کرتے تمہاری کوئی نہیں سنے گا۔
شہباز بیٹے!!
سنو، نواز ہر سیاسی معاملہ میرے ساتھ ڈسکس کرتا تھا اور میرا مشورہ لیتا تھا، سنا ہے تمہارے سارے مشیر ٹیکنو کریٹ ہیں تمہیں خواجہ آصف، رانا تنویر اور رانا ثنا اللہ جیسے دوسرے سینئر سیاسی ساتھیوں سے زیادہ مشورے کرنے چاہئیں، چچا اور بھتیجی کو نواز کے ساتھ بیٹھ کر وفاق اور پنجاب کی ایک جیسی پالیسیوں پر بات کرنی چاہیے، یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ نونی سیاست کو آگے چل کر مریم نے لیڈ کرنا ہے یا تم نے؟یہ بھی سوچیں کہ جنید صفدر، ذکریا اور زید میں سے کسی کو موقع دینا ہے یا نہیں؟ کیا حمزہ پس منظر میں ہی رہے گا یا اس کا مستقبل میں کوئی کردار سوچا گیا ہے؟ یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ کیا نواز شریف نے اسی طرح لمبی چپ اور میل ملاقات سے مکمل گریز کے ساتھ ہی سیاست کرنی ہے؟ اگر وہ صدمے، ناراضی اور مایوسی سے باہر نہیں آتا تو پھر اسے سیاست سے الگ ہو جانا چاہئے۔آخری بات یہ کہ عمران کو عدالتی، فوجی اور عوامی شعبوں میں مادی شکست تو ہوگئی ہے مگر وہ آج بھی اخلاقی اورسیاسی طور پر وکٹری سٹینڈ پر کھڑا ہے، یہ سچ ہے کہ پے در پے شکستیں پی ٹی آئی کا حوصلہ توڑ دیں گی مگر سیاست میں سرگرم ان کروڑوں لوگوں کی مکمل مایوسی، ریاست کیلئے بھاری ثابت ہوگی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ مصالحت کے راستے کھلے رکھو۔ انہیں مایوسی کے اندھیروں میں نہ جانے دو۔
تمہارا، ابا جی