کراچی ( نیوز ڈیسک) سابق وزیراعظم عمر ان خان نے اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر برائے آزادی ججز اور وکلا کے پاس ایک فوری اپیل دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئینی ترمیم سے قانون کی حکمرانی کو خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ کی کی خصوصی رپورٹر مارگریٹ سیٹروائیٹ کے سامنے کی گئی یہ ہنگامی اپیل اس مجوزہ آئینی ترمیم سے متعلق ہے جسے حکومت رواں ہفتے میں منظور کرانا چاہتی ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق مجروح ہونگے،فوجی اقدامات پرعدالتی نظرثانی ختم ہوجائیگی، نئی عدالت کا انتخاب پارلیمانی کمیٹی کے خفیہ اجلاس میں ہوگا۔ اپریل 2022 میں ان کی حکومت سے بیدخلی کے بعد ان کی جماعت اور حامیوں کو سیکڑوں جعلی مقدمات کا سامنا ہے۔ عمران خان اگست 2023 سے زیر حراست ہیں اور جون 2024 میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جانبدارانہ حراست نے ان کی حراست کو غیر قانونی اور بے بنیاد پایا تھا۔ 11 ستمبر 2024 کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عمران خان کی اس بے بنیاد حراست کو فوری طورپر ختم کرنے کےلیے کہا تھا۔عمران خان نے جوفوری اپیل دائر کی ہے وہ ایڈورڈ فٹزجیرالڈ کے سی، تاتیانا ایٹ ویل اور جینیفر رابنسن کے ذریعے فائل کی گئی ہے۔ان وکلا کو عمران خان کی جانب سے جو ہدایات پہنچائی گئی ہیں ان کے تحت اقوام متحدہ اور دیگر بین االاقوامی سطح پر سماجی مقاصد کی وکالت کرنے والی تنظیموں سے رابطے کرنا شامل ہے۔ پاکستان کے آئین میں جو مجوزوہ 26 ویں آئینی ترمیم کرانے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے پاکستان میں عدلیہ اور قانون کی حکمرانی کو خطرہ ہے جب کہ اس سے پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق بھی مجروح ہوں گے۔اس اپیل کے مطابق مجوزہ اآئینی ترامیم مندرجہ زیل تبدیلیاں لائیں گی۔سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو ختم کرتے ہوئے اسےایک نئی وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کرنا، جس میں بنیادی حقوق کے تحفظ کے نفاذ اور آئینی تشریح سے متعلق معاملات شامل ہیں؛نئی وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے انتخاب کے لیے ایک نئی قومی اسمبلی کمیٹی کا قیام، جس کی میٹنگز خفیہ ہوں گی، اس اقدام نے عدالتی تقرریوں میں سیاسی مداخلت اور عدلیہ کی آزادی اور عوامی نگرانی کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے سنجیدہ خدشات پیدا کیے ہیں؛پاکستان کی فوج اور سیکیورٹی سروسز کے اقدامات پر عدالتی نظرثانی کی صلاحیت کو ختم کرنا، جو مزید نظامی استثنیٰ کو تقویت دے گا۔اگر یہ ترامیم منظور ہو جاتی ہیں تو یہ مسٹر خان کو ان کے خلاف درج کیے گئے مقدمات کو چیلنج کرنے کی صلاحیت کو نمایاں طور پر محدود کر دیں گی، بشمول حکومت کی طرف سے ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے منصوبے، اور یہ عدلیہ کی آزادی، اختیارات کی علیحدگی، اور پاکستان میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے تحفظ کو مزید نقصان پہنچائیں گی۔