اسلام آباد (قاسم عباسی) پاکستان کا ایک لیجنڈ کرکٹر سٹہ بازی (جوئے) کی دو بڑی کمپنیوں کا سفیر بن گیا ہے۔
لیجنڈری فاسٹ بالر نے ان غیر قانونی بیٹنگ سروگیٹ کمپنیوں کی تشہیر کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ میں نے کرکٹ میں کئی ناقابلِ فراموش لمحات گزارے ہیں، لیکن اصل کامیابی کچھ ایسا بنانا ہے جو قائم رہے۔
انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ آئیے سنسنی سے لطف اندوز ہوں اور ایک ساتھ پائیدار یادیں بنائیں، آپ کے ساتھ یہ سفر شیئر کرنے کیلئے مزید انتظار نہیں کر سکتا، بادشاہ کی طرح جیتو۔
دوسری جانب ’دی نیوز‘ نے اس سے قبل خبر دی تھی کہ کیسے بابر اعظم جیسے کرکٹ اسٹارز نے محمد رضوان کے ساتھ غیر قانونی بیٹنگ کمپنیوں کی لاکھوں روپے کی پیشکش ٹھکرا دی تھی، یہ انکشاف اس نمائندے کے پاس موجود ای میلز سے سامنے آئے ہیں۔
’دی نیوز‘ نے سابق کرکٹر سے اس معاملے پر مؤقف جاننے کی کوشش لیکن انہوں نے اس نمائندے کو بلاک کر دیا۔
اس نمائندے نے سابق کپتان کے منیجر کو کئی پیغامات بھیجے لیکن انہوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
150 سے زائد غیر قانونی سروگیٹ بیٹنگ کمپنیوں پر انوار الحق کاکڑ کی نگراں حکومت نے پابندی عائد کی تھی لیکن اب یہی کمپنیاں پاکستان میں دوبارہ سرگرم ہیں۔
گزشتہ سال وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سروگیٹ بیٹنگ کمپنیوں کیلئے عدم برداشت کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے کریک ڈاؤن کیا، ایک کمپنی کو غیر قانونی قرار دیا گیا جبکہ 150 سے زائد بیٹنگ کمپنیوں کو بلاک کیا گیا۔
وزارت نے تمام متعلقہ محکموں، میڈیا ہاؤسز اور کمپنیوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ ان کمپنیوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کریں، تاہم ایک ہفتہ قبل ایک اسپورٹس چینل سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے درمیان کرکٹ سیریز کی لائیو ٹرانسمیشن کے دوران ان سٹے باز کمپنیوں کے لوگو کی تشہیر کرتے پایا گیا۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ نگراں حکومت کے دوران اس وقت کے وزیرِ اطلاعات نے پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا سیریز کے دوران سرکاری ٹی وی کے اسپورٹس چینل کی نشریات صرف اس لیے بند کی تھیں کہ اسکرین پر ایک کمپنی کے لوگو کی تشہیر کی جا رہی ہے جس کی اب پروموشن کی جا رہی ہے۔
سابق اسٹار کرکٹر نے بھی اس کمپنی کی اسپانسر شپ قبول کی ہے۔
جب ’دی نیوز‘ نے پیمرا سے رابطہ کیا تو اُن کا جواب تھا کہ بیٹنگ کمپنی کے لوگوز مبینہ طور پر ایک بین الاقوامی اسپورٹس چینل کے سگنل پر زبردستی لگائے گئے ہیں، اس خلاف ورزی کا تکنیکی طور پر چینل کی ٹرانسمیشن دیکھ کر اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔