مولانا عبدالقیوم حقانی
(مہتمم جامعہ ابوہریرہ،نوشہرہ)
مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ علم کے بحرِبےکراں، علومِ نبوت پرکامل دسترس کے حامل، علمی اور روحانی استعداد میں باکمال ،درس وتدریس اور انتقالِ علم میں اکمل تھے۔ کامل مدرس اور صاحب نگاہ ،آدابِ زندگی سے آشنا کرنے میں اپنی مثال آپ تھے، حقیقت یہ ہے کہ جب تدریسی کمال ہی نہ رہے تو آدابِ زندگی کا درس کون دے گا؟! مسندِ تدریس ایک بارخالی ہوجاتی ہے تو برسوں پُر نہیں ہوتی۔
جامعات ، دارالعلوم، مدارس اور درس گاہیں تو آئے روز کھل رہے ہیں، لیکن فکر وآگہی اور علم وفن کے کواڑ ایک ایک کرکے بند ہورہے ہیں۔ بے شک آج کتب خانے بہت ہیں ، مگر کتابوں کے دیوانے کم یاب ہیں، صاحبِ کتاب، کامل استاذ او رصاحبِ نظر کی نگاہیں تقدیر بدل دیتی ہیں۔ حضرت مولانا محمد عبدالحلیم چشتی ؒجیسے عالمِ دین اٹھالیے گئے جن کی جگہ سنبھالنے والا نہ تو اس وقت تک نظر آرہا ہے اور نہ حالات کے تیور دیکھ کر اُمید بندھتی ہے کہ یہ خلا جلد پورا ہوگا۔
یادگارِ اسلاف، مُحققِّ کبیر،نابغۂ عصر مولاناڈاکٹر عبدالحلیم چشتی ؒ 25شوّال المکرّم1347ھ/6اپریل1929ءکو جے پُور راجستھان انڈیا میں پیدا ہوئےاور طویل علمی ،دینی تصنیفی وتدریسی خدمات انجام دینے کے بعد 15صفر المظفر1442ھ/12اکتوبر2020ء کو کراچی میں رحلت فرماگئے۔
مولانا محمد عبدالحلیم چشتی ؒکے علم وفضل کا یہ عالم تھا کہ وہ نصف صدی سے زائد عرصہ مسندِ تدریس پر متمکن رہے، سیکڑوں علماء کے استاذ، بیسیوں شیوخِ حدیث کےمربّی اور پچاسیوں مہتممین کے اتالیق ہونے کے باوجود، ساری عمراُن کا انداز طالب علمانہ رہا۔ علمی، دینی، تحقیقی، تصنیفی، قلمی اور تدریسی حلقوں میں اُن کی محبوبیت ومقبولیت بوئے گل کی طرح پھیلی ہوئی تھی ، مگر بایں ہمہ انہوں نے عمر بھر سادگی اور درویشی کی زندگی گزاری۔ ان کے رشحاتِ قلم، ان کے قلمی افادات، تحقیقی مقالات اور ان کے تدریسی افاضات کے ڈنکے بجتے رہے، لیکن وہ ہمیشہ تشہیر سے بچتے رہے۔
مولانا چشتیؒ ایک عظیم محدّث، ایک منجھے ہوئے مدرس، ایک شفیق اتالیق، قابلِ تقلید محقق اور عظیم مصنف تھے،مگر اس دنیا سے ایسی خاموشی کے ساتھ اُٹھے، جس خاموشی کے ساتھ وہ دنیا میں رہے، مگر خاموشی سے مراد سمندر کے پانی کی خاموشی ہے، ظاہر خاموش مگر باطن پُرجوش۔
انہیں نام سے نہیں، کام سے لگاؤ رہا، نہ وہ اخبار میں چھپتے تھے، نہ الیکڑانک میڈیا پر آتے تھے، نہ منبر پر گرجتے تھے، نہ جلسوں میں برستے تھے، نہ عبا اوڑھتے ، نہ کلاہ پہنتے تھے، بالکل سادہ پوش اور سادہ دل تھے۔ نہ تو انہوں نے علّامہ کہلوانے کا شوق پالا، نہ سیاسی زعیم اور لیڈر بننے کا ڈول ڈالا، اگلی صف میں بیٹھنے کے عادی ہی نہ تھے، یہ الگ بات ہے کہ دینی مدارس اور اسلامی جامعات کے شیوخ، محدثین، جیّد علماء ان کے پیچھے بیٹھنے میں عزت محسوس کرتے تھے۔وہ عظیم و ضخیم کتابوں کے مصنف بھی تھے رجال ساز اور آدمی بھی تصنیف کرتے تھے ،بڑے بڑے محدثین، مشائخ وعلماء اور قومی زعماء ان کے فیض یافتہ ہیں، بڑی بڑی جامعات کے مشائخ ان کے خوانِ تدریس کے خوشہ چیں تھے، آج پورے ملک میں ان کے لائق تلامذہ شہرِ علم کے اونچے منصب دار ہیں۔
حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی ؒ علمی حوالے سے محبوبیت ومرجعیت اور شہرت کے بلند منصب پر فائز تھے، مگر اسے انہوں نے کبھی بھی منفعت کا ذریعہ نہیں بنایا، انہیں عمر بھر اس کی فکررہی کہ سنجیدہ ومتین علماء اور مدرّسین کم ہوتے جارہے ہیں اور معیارِ تعلیم وتدریس گرتا جارہا ہے۔
جامعۃ العلوم الاسلامیہ کراچی کا یہ نابغۂ روزگار اور عالم ِخوش کردار اپنی طبعی عمر پوری کرکے اس حال میں دنیا سے رخصت ہوا کہ علمی وتدریسی حلقوں کو نڈھال اور پُرملال کرگیا۔ انہوں نے آخری سانس اس طرح لی کہ جامعات، علمی مراکز اور دینی مدارس میں ایک ہلچل مچ گئی اور صف ِماتم بچھ گئی۔ ایک ہجوم جنازہ گاہ میں اُمڈ آیا، سچ ہے خدا جسے اپنا بناتا ہے بندوں کے دل اس کی جانب پھیر دیتا ہے۔
کوئی پندرہ سال قبل کی بات ہے، احقرجامعہ ابوہریرہ کتب خانے کی بالائی منزل میں تنہا بیٹھا محو ِمطالعہ تھا کہ اچانک ایک بزرگ شخصیت، قدرے کمر خمیدہ، جسم پر ضعف وعلالت کے آثار نمایاں، بڑی مشکل سے سیڑھیوں کو عبور کرکے کتب خانے میں در آئے، نہ جان نہ پہچان، نہ پہلے سے دیکھا تھا، وضع قطع اتنی سادہ کہ میں انہیں قرب وجوار کے کسی محلّے کا باسی سمجھ کر وہ توجہ نہ دے سکا، جو دور سے آنے والے عظیم مہمان کو دینی چاہیے، علیک سلیک کے بعد اپنا تعارف کراتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ عبدالحلیم چشتی میرا نام ہے، آپ کے رسائل ، سوانحات، مضامین اور بہت سی کتابیں پڑھی ہیں، ملاقات کا اشتیاق تھا، حاضر خدمت ہوگیا ہوں‘‘۔
مجھے ان سے پہلی بار شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ نہ جبّہ، نہ دستار، نہ عمامہ اور نہ کوئی پروٹوکول، نہ خدّام کا جمگھٹا اور نہ کوئی خادم رفیقِ سفر، نہ علماء جیسا رُعب داب، نہ زاہدوں جیسا لیا دیا پن، نہ مشائخ جیسا ہمہمہ، نہ خطیبوں جیسی آن بان، نہ دانشوروں جیسا تکلّف ، نہ بڑے لوگوں جیسا ترفّع:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
اللہ تعالیٰ نے حضرت چشتی صاحبؒ کو جس طرح دنیا میں محبوبیت، مرجعیت اور عظمتیں عطا فرمائی تھیں، یقیناً آخرت میں بھی انہیں عزتیں ملیں گی۔ حضرت چشتی صاحب ؒنے دستار کے بغیر کردار کی حفاظت کی، عباکے بغیر عالمانہ ادا برقرار رکھی، کلاہ کے بغیر بلند نگاہ رہے، ارزاں پوشاک کے ساتھ گراں اخلاق رہے۔ اور ہاں! ان کا اندازِ زیست عام توتھا،مگر عامیانہ نہیں تھا، وہ مزاجاً افہام وتفہیم کے قائل تھے، مگر مصلحت اندیش نہ تھے، طبعی سادگی ان کی فطری نہادتھی، مگر دینی پختگی پر حرف نہیں آنے دیا۔
حسرت ہوتی ہے کہ حضرت چشتی صاحب ؒوضع وقطع میں بہت ہی سادہ تھے، انہیں اونچی کرسی پر بیٹھنے کا کوئی لپکا نہیں تھا، کپڑوں کی اکڑفوں سے قطعی بے نیاز تھے، اونچا بولنے میں حد درجہ محتاط تھے، جبّہ ودستار سے بیزار تھے،قیمتی بنگلہ اور گاڑی رکھنے کے شوق سے مستغنی تھے،ہمیشہ گمنام رہنے کے خواہاں رہے اور مستزاد یہ کہ اس دور کے دینی اور علمی حلقوں میں علماء خطباء، قائدین عمائدین، دانشوروں اور اربابِ فضل وکمال کی ایک کہکشاں آباد تھی، اس کے باوجود حضرت چشتی صاحب ؒبہت نمایاں ہوکر رہے۔
مولانا ضیاء الدین پیرزادہ نے کراچی میں اپنی مسجد میں مولانا ڈاکٹر سید شیر علی شاہ ؒ کے ارتحال پر ان کی یاد میں کانفرنس منعقد کی، مجھے بھی مدعو فرمایا، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خانؒ، نامور عمائدین اور دیگر علماء وزعماء بھی مدعو تھے، اس موقع پر حضرت چشتی صاحب ؒبھی اسٹیج کی رونق تھے، مگر دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے نہ تو کوئی خطاب فرمایا، نہ درس دیا، مگر بایں ہمہ وہ نمایاں رہے، حضرت میرے بیان میں موجود رہے ، حسن ِسماعت کا اظہار کررہے تھے، تمام علماء یک زبان تھے اور چشتی صاحبؒ کی علمی شخصیت سب کے دل ودماغ پر چھائی ہوئی تھی۔
شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خانؒ جیسے اعاظم واکابر کے ہوتے ہوئے حضرت چشتی صاحب ؒکانام ہونا، اونچا مقام پانا، ان کے عجز وانکسار کی صفات کا برملا اعتراف ہے، زمانہ بہرحال حقدار کواس کا حق پہنچانے میں بخل اور دیر نہیں کرتا۔
حضرت ؒ نے اپنی عظیم ووقیع کتاب ’’ اسلامی قلمرو میں اقرأ اور علَّم بالقلم کے ثقافتی جلوے‘‘ عنایت فرمائی۔جو حضرتؒ کے علمی کمالات، قلمی رشحات اور ادب وتحقیق کی شاہ کار علمی سوغات ہے، جس سےحضرتؒ کی سیرت وسوانح کا ایک روشن باب بھی سامنے آجاتا ہے۔۱۳۲ھ تا۶۵۲ ھ پر محیط اس دور کے کتب خانوں پر مختلف حضرات نے کام کیا، مگر بوجوہ اس موضوع کا احاطہ نہ کرسکے۔
مخدوم ومکرم بزرگ عالم دین بقیۃ السلف معروف محقق مورخ وادیب حضرت مولانا محمدڈاکٹر عبدالحلیم چشتیؒ نے اس ذمہ دارانہ، مورخانہ اور محققانہ کام کا بیڑا اٹھایا، یقیناً حضرت مولاناؒ کو وسیع مطالعہ کے ساتھ مختلف کتب خانوں میں عملی کام کا طویل تجربہ بھی حاصل تھا، کتابوں سے بھری ہزاروں الماریاں ان کے سامنے تھیں، عربی ، انگریزی، اردو اور فارسی میں اس حوالے سے جو کچھ لکھا گیا ہے، چاہے مطبوعات کی شکل میں ہویا مخطوطات کی صورت میں، ان سب سے استفادہ کرکے انتہائی عرق ریزی اور جزرسی سے دوضخیم جلدوں پر مشتمل ایک عظیم الشان شاہ کار امت کے سامنے پیش کردیا ہے جس کے مندرجات کا تعارف ٹائٹل پریوں کیا گیا ہے:۔
’’کتب خانوں کی شناخت کے بنیادی وفروعی اصول کا مفصل تعارف، کتب خانوں کی نشوونما اور ارتقاء پرایک جامع نظر، املاء کے عہد بہ عہد تاریخی سفر کی معلومات آفریں روئیداد ،عہد عباسی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ اشخاص کے کتب خانوں کا عطر بیز تذکرہ کیٹلاگ سازی، علوم کی درجہ بندی اور کتاب سازی کے بنیادی مباحث کا خوبصورت تجزیہ، نامور کتابیات نگار، کتابیاتی سرگرمیوں اور فنِ کتابیات کی اصطلاحات پر تفصیلی روشنی، تشکیل ، ترتیب اور نظامِ کتب خانہ کی قیمتی معلومات پر ایک اچھوتی تحریر، تحفظ کتاب کی احتیاطی تدابیر اور ناظم کتب خانہ کے لیے رہنما اصول، اقرأ اور علّم بالقلم کے صفحہ عالم پر ثبت تاریخی وعلمی نقوش کا مختصر جائزہ فنِ کتب خانہ کی اہم دلچسپ اور نادر مباحث پر مشتمل تاریخی وتحقیقی دستاویز‘‘۔
ان مرکزی عنوانات میں سے ہر عنوان درجنوں ذیلی عنوانات لیے ہوئے ہے۔ کتاب باطنی خوبیوں کے ساتھ ظاہری حسن سے بھی مالا مال ہے۔ تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل کتاب کی ثقاہت، عظمت اور افادیت کے لیے اس کےعظیم مصنف مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتیؒ کا نام ہی ضمانت ہے۔