آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: میرا ایک دوست اسلام آباد میں ایک دس منزلہ بلڈنگ اپارٹمنٹ کی صورت میں تعمیر کررہا ہے، تعمیر اب ابتدائی مراحل میں ہی ہے، لیکن ساتھ ہی وہ ان اپارٹمنٹ کو قسطوں میں بیچنا چاہتا ہے، اور کچھ اپارٹمنٹس کی بکنگ بھی ہوچکی ہے اور تعمیرات بھی جاری ہیں۔
نیز وہ اس بلڈنگ کا گراؤنڈ فلور اپنے پاس رکھ کر اس میں اپنا بزنس شروع کرے گا۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس پراجیکٹ پر زکوٰۃ کیسے ادا کی جائے گی ؟کیا تعمیراتی اخراجات کو بھی زکوٰۃ کے حساب میں شامل کیا جائے گا؟
جواب: واضح رہے کہ از روئے شرع خرید و فروخت صحیح ہونے کے لیے فروخت کردہ چیز کا وجود میں آنا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا زیر تعمیر عمارت کے وہ فلیٹ جن کا وجود نہ ہو، انہیں فروخت کرنا، شرعاً جائز نہیں ہوتا، البتہ ایسے فلیٹ کی بکنگ کرانا جائز ہوتا ہے، جو کہ درحقیقت فریقین کے درمیان وجود میں آنے کے بعد اس کی خرید و فروخت کا وعدہ ہوتا ہے، اور وعدے کی بنیاد پر قسطیں وصول کرنے کی اجازت ہوتی ہے، پس جیسے جیسے عمارت تعمیر ہوتی جاتی ہے، فریقین کے درمیان خرید و فروخت کا سودا مکمل ہوتا جاتا ہے، اور فروخت کنندہ رقم کا مالک ہوجاتا ہے، جب کہ خریدار اپنے فلیٹ کا مالک بن جاتا ہے، اور تعمیرات نہ ہونے کی صورت میں رقم کا مالک بدستور بکنگ کرانے والا ہوتا ہے، اور رقبہ پر ملکیت بلڈر کی باقی رہتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں قسطوں کی مد میں جمع شدہ رقم کی زکوٰۃ بکنگ کرانے والے افراد پر واجب ہوگی، اور رقبہ کی زکوٰۃ بلڈر پر واجب ہوگی۔
زکوٰۃ کا سال مکمل ہونے کی تاریخ تک جو رقم تعمیرات میں صرف ہوچکی ہے وہ رقم تو زکوٰۃ کے حساب میں شمار نہیں ہوگی، لیکن اس تاریخ میں مذکورہ پروجیکٹ کی موجودہ مالیت پر زکوٰۃ واجب ہوگی، ہاں اس میں سے اس تاریخ تک واجب الادا قرض منہا کیے جائیں گے، خواہ وہ تعمیرات کی مد میں ہوں۔( فقط واللہ اعلم)
اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
masail@janggroup.com.pk