اسلام آباد (طاہر خلیل، نیوز ایجنسیاں) 26 ویں آئینی ترامیم سے متعلق حکومتی مسودے کے نکات سامنے آگئے، مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7ارکان پر مشتمل ہوگی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کریگی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر3سینئر ترین ججز میں سے کیا جائیگا، آئینی عدالت کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں ہوسکے گا،خصوصی کمیٹی کے دوسرے ان کیمرا اجلاس میں آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کیلئے ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی،اجلاس میں جے یو آئی نے بھی اپنا مسودہ پیش کر دیا، ذرائع نے دعویٰ کیا کہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں حکومتی جماعتیں ایک پیج پر آگئی ہیں، جے یو آئی نے حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کرتے ہوئے آئینی عدالت کی جگہ بینچ تشکیل دینے کی تجویز دی ہے، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام قائداعظم کا خواب تھا،پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ آئینی عدالت بنانا بالکل غلط ہے، جبکہ وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ کچھ غیر آئینی نہیں ہو رہا۔ تفصیلات کے مطابق مجوزہ 26 ویں آئینی ترامیم کے معاملے پر ہفتے کو بھی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی دوسراان کیمرہ اجلاس پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کی زیرِ صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس کے دوران جے یو آئی نے مجوزہ ڈرافٹ کمیٹی میں پیش کیا۔ حکومت نے وفاقی آئینی عدالت بنانے کا فارمولہ سیاسی جماعتوں سے ساتھ شیئر کر دیا۔ وفاقی آئینی عدالت کیسے تشکیل دی جائیگی، حکومت نے ڈھانچہ تیار کر لیا۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہوگی۔ مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز رکن ہونگے۔ مجوزہ ترمیم میں کہا گیاکہ وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا نمائندہ شامل ہو گا۔ دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن سے دو، دو ارکان لیے جائینگے، اسکے علاوہ صوبائی آئینی عدالتیں چیف جسٹس، صوبائی وزیرقانون، بارکونسل کے نمائندے پرمشتمل ہوگی۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق جج کی اہلیت رکھنے والے کیلئے نام پرمشاورت کے بعد وزیراعظم معاملہ صدر کو بھجوائیں گے، وفاقی آئینی عدالت کے باقی ممبران کا تقرر صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے کرینگے، چیف جسٹس اور ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیراعظم کو دیئے جائینگے۔ مجوزہ ترمیم کے تحت جج کی عمر 40 سال، تین سالہ عدالت اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ لازمی ہوگا، جج کی برطرفی کیلئے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائیگی اور کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدر مملکت دینگے۔ مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گا، چاروں صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہوسکے گی۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوگا اور سینئر ترین جج کی بجائے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر3سینیئر ترین ججز میں سے کیا جائیگا۔ذرائع کے مطابق حکومت نے آئینی ترامیم کے 56 نکاتی مسودہ پر پارلیمانی رہنماؤں سے مشاورت کی۔ مولانا فضل الرحمٰن کو ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس کا حصہ بنایا جبکہ پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر بھی ویڈیو لنک پر اجلاس میں شریک ہوئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاریوں کا شکوہ کیا۔ وفاقی وزیر قانون نے اپوزیشن لیڈر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ابھی آئینی ترمیم پر تجویز دیں یہ معاملہ بعد کا ہے۔ پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس 17 اکتوبر تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اجلاس میں مختلف جماعتوں کے مسودوں پر غور کیلئے ذیلی کمیٹی بنا دی گئی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی۔ ذیلی کمیٹی میں پی ٹی آئی کے 2 ارکان کو بھی شامل کیا گیا ہے، کمیٹی 2 روز میں سفارشات مرتب کرکے خصوصی کمیٹی کو دیگی۔ذیلی کمیٹی مخصوص کمیٹی کو رپورٹ دیگی، ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں کوئی بھی شرکت کرسکے گا، خصوصی کمیٹی کا اجلاس 17 اکتوبر کو ہو گا۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ ساری جماعتوں کے مسودوں میں کوئی اصولی اختلاف نہیں ہے، پی ٹی آئی کے اختلافات زیادہ ہیں، انکے تحفظات بھی ہیں، پی ٹی آئی کے تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کی گئی ہے۔ اجلاس کے موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس طرحکے معاملات میں گفت و شنید سے بات آگے بڑھتی ہے، کون سا ایسا مسئلہ ہے جس کا حل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ماہ سے اس مسئلے پر عوام میں بحث چل رہی ہے، اس میں کون سی غیرآئینی چیز ہے؟ اپوزیشن کے دوستوں سے کہوں گا اپنی تجاویز بھی دیں، صرف تنقید سے معاملات حل نہیں ہونگے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام قائداعظم کا خواب تھا۔بلاول بھٹو نے حوالہ جات کے ساتھ ٹویٹر پیغام میں کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے پہلی مرتبہ وفاقی آئینی عدالت کی تفصیل 27 اکتوبر 1931 کو لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنس میں پیش کی، انکی یہ تجویز تقریباً پی پی پی کی پیش کردہ تجویز سے مماثلت رکھتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ قائداعظم کی جانب سے عدالتوں پر غیر ضروری بوجھ کو کم کرنے کا حل تھا جو ان کو دیے گئے وسیع دائرہ اختیار کی وجہ سے تھا، قائداعظم کی تجاویز بعد میں جرمنی کے 1949 کے بنیادی قانون سے بھی مماثلت رکھتی تھیں جس نے وفاقی آئینی عدالت قائم کی۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے ڈرافٹ میں صرف آئینی عدالت اور بینچ کا فرق ہے، پیپلز پارٹی کے باقی ڈرافٹ پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، امید ہے جلد دونوں جماعتیں مشترکہ ڈرافٹ پر اتفاق کر لیں گی۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے حکومت کے 56 نکاتی مسودے کے جواب میں 24 نکات پیش کرتے ہوئے کہا کہ 200 سے بھی کم آئینی مقدمات کیلئے بڑے سیٹ اپ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔