• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ بجلی کے بحران کی وجہ سے پاکستان معاشی ابتری کا شکار ہے۔ اس بحران کی وجہ سے مسلسل غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور عام آدمی کی زندگی ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔2019ء کے اقتصادی سروے کے مطابق ہر پاکستانی اپنی آمدن کا 7 فیصد بجلی اور گیس پر خرچ کرتا تھا جو خرچہ اب تقریبا ~10فیصد تک پہنچ گیا ہے ۔ اسکے مقابلے میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اس مد میں اوسطاً 5فیصد خرچ کرتے ہیں۔ بین الاقوامی انرجی ایجنسی کی 2022ء کی رپورٹ کے مطابق میکسیکو ،انرجی کی مد میں 5.5فیصد، انڈونیشیا 5فیصد، برطانیہ 4.8فیصد جبکہ امریکہ اور کینیڈاصرف3فیصد خرچ کرتے ہیں ۔انرجی کی مد میں دوسرے ممالک سے زیادہ فی کس خرچہ کرنے کے باوجود ہر پاکستانی ایک سال میں صرف 3895کلو واٹ بجلی استعمال کرتا ہے جوکہ دنیا بھر میں انرجی کے کم ترین استعمال میں سے ایک ہے۔ جبکہ ایران ، مشرقی یورپ اور چین ہمارے مقابلے میںفی کس 10گنا زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں ۔اور تو اور ہندوستان میں بھی فی کس انرجی کا استعمال ہم سے دگنا ہے۔دوسری طرف ہماری بجلی پیدا کرنے کی لاگت خطے میں سب سے زیادہ ہے کیونکہ ہم درآمدی تیل ، فرنس آئل ، ایل این جی اور درآمدی کوئلے سے تقریبا~60فیصد بجلی پیدا کرتے ہیں جبکہ پانی ، نیوکلیئر ، سولر، ہوا اور بائیو گیس سے صرف40 فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی قیمت 12روپے فی یونٹ بنتی ہے جبکہ درآمدی کوئلے سے بجلی کی قیمت 25روپے فی یونٹ آتی ہے۔یہاں یہ امر بہت تشویش ناک ہے کہ ہمارے حکمران آئی پی پیز سے بجلی خریدنے کا زیادہ رجحان رکھتے ہیںاور متبادل ذرائع توانائی پر کوئی دھیان نہیں دیتے اور نہ ہی ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے نئے کوریڈورز کے متلاشی ہیں۔ اسی وجہ سے آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ چالیس آئی پی پیز کو 2 ٹریلین روپے دینے کا ہے۔ اس وقت تقریباً 53آئی پی پیز مکمل طور پر بند ہیں لیکن حکومت پاکستان ان کو مسلسل کپیسٹی پیمنٹ کر رہی ہے۔یاد رہے کہ 2013سے 2022ء تک کراچی کے قریب گھارو سے جھمپیر کے درمیان ونڈ پاور کوریڈور میںبجلی پیدا کرنے والی36ملز لگائی گئی تھیں جہاں سے آج بھی 1845میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس کوریڈور میں مزید ملز لگائی جائیں تو پاکستان میںسستی بجلی کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل ہو سکتا ہے۔ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی ایک مل جو کہ 2019ء میں لگائی گئی تھی ، وہ آج بھی نیشنل گرڈ کو 14روپے فی میگا واٹ بجلی فراہم کر رہی ہے۔ ان ملز کو وہ پیسے ملتے ہیں جتنی بجلی حکومت ان سے خریدتی ہے اور انکے معاہدے میں کوئی کپیسٹی چارجز کا ذکر نہیں ہے ۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی ملز کے مالکان کو حکومتی اداروں کی طرف سے باربار کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی ملز سے کم سے کم بجلی پیدا کریں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہماری منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ آج تک ہم وہ انفرا سٹرکچر ہی نہیں بناپائے جس کے ذریعے یہاں سے پیدا ہونے والی بجلی کو نیشنل گرڈ سے ملایا جا سکے۔حکومتی ذرائع کے مطابق آج بھی 27نئے انرجی پلانٹ جو ہوا سے 1875میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں، وہ حکومت کی منظوری کے منتظر ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت نے 2030ء تک مزید 1000کلو واٹ بجلی ہوا سے چلنے والی ملوں سے پیدا کر کے نیشنل گرڈ میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔دنیا بھر میںاقتصادی ماہرین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ جس ملک میں توانائی کا بحران ہوگا، وہ ملک خوشحال نہیں ہو سکتا کیونکہ بڑی صنعت کاری اسکے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔آج پاکستان میں تقریباً چالیس لاکھ نئے نوجوان ہر سال روزگار کیلئے تیار ہو جاتے ہیںجس کیلئے ضروری ہے کہ ہم بڑے پیمانے پر ایسی صنعتیں لگائیں جہاں زیادہ سے زیادہ لیبر کی کھپت ہوسکے۔آج بھی تھر کے کوئلے سے ہم چار روپے فی کلوواٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں جس سے وہ انڈسٹریز بھی لگائی جا سکتی ہیں جو بہت زیادہ بجلی استعمال کرتی ہیں، جن میں سٹیل مل ، ایلمومنیم سملٹنگ اور پیٹرو کیمیکلز کی صنعتیں شامل ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ تیل پر چلنے والے پاور پلانٹس کو تھر کے کوئلے پر منتقل کیا جائے ،گو کہ ایسا کرنے کیلئے مزید کوئلے کی ضرورت پیش آئے گی جس پر ایک تخمینے کے مطابق پانچ سال کے عرصے میں 1.2بلین ڈالرز کی ضرور ت ہوگی ، لیکن اس طرح ہم اپنی 90فیصد توانائی کو لوکل توانائی میں تبدیل کر لیں گے۔آج دنیا بھر میں کوئلے کو گیس میں تبدیل کیا جاتا ہے جس سے کھاد بھی پیدا کی جاتی ہے،اسی طرح کوئلے کو مائع میں بھی تبدیل کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں ٹیکنالوجی موجود ہے ، صرف حکومت پاکستان کو اپنی دور رس پالیسیوں کو انرجی کے بڑھتے ہوئے بحران کی نسبت سے ترتیب دینا ہوگا۔

آج پاکستان 15بلین ڈالرز کی انرجی درآمد کرتا ہے جو ہماری مجموعی درآمدات کا تیسرا یا چوتھا حصہ ہے۔ پاکستان میں جو انرجی درآمد کی جا رہی ہے ، وہ یا تو پیٹرول یا ڈیزل کی شکل میں منگوائی جاتی ہے جس میں 80فیصد حصہ ٹرانسپورٹ استعمال کرتا ہے۔ اس کے برعکس دنیا بھر میں بجلی سے چلنے والی ٹرانسپورٹ نے انقلاب برپا کر دیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2030ء تک چین کی تمام گاڑیاں بجلی پر منتقل ہو جائیں گی۔آج پاکستان میں 2کروڑ موٹر سائیکلیں چل رہی ہیں جو 5ارب روپے کا درآمد ی پٹرول استعمال کر رہی ہیں۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ جلد از جلد ان موٹر سائیکلز اور سرکاری طور پر چلنے والی گاڑیوں اور بسوں کو بجلی پر منتقل کرے۔ حکومت کو چاہیے کہ توانائی کی بچت کے طریقوں کے بارے میں نیشنل میڈیا پربھر پور آگاہی مہم چلائے۔آج زیادہ آمدنی والے گھرانے سولر سسٹم ،آلات کی تبدیلی اور عمارتوں کی بہتری پر خرچ کر سکتے ہیں لیکن کم آمدنی والے گھرانے کیلئے یہ اخراجات ناممکن ہیں۔ایسے گھرانوں کو کم از کم 500یونٹ بجلی پر سبسڈی فراہم کی جائے تاکہ ریاست اور عام آدمی کے درمیان شناختی کارڈ کے علاوہ بھی کوئی رشتہ استوار ہو سکے۔

تازہ ترین