کراچی ( رفیق مانگٹ) آکسفورڈ کے چانسلر کے امیدوار بننے کی نااہلیت کی فہرست سامنے آنے سے چند گھنٹے قبل برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے عمران خان پر شدید تنقید کی ہے ۔
اخبار نے لکھا کہ عمران خان خود پسند اور چانسلر کیلئے نا اہل ہیں ،منتخب ہوئے تو مغرب دشمنوں کی مدد کرینگے، وہ طالبان کے معترف بھی رہے ہیں ، 2018میں ہیرا پھیری سے وزیراعظم بنے ، سیاسی ظلم کا شکار نہ مظلوموں کے رہنما ہیں ، انہیں 1980 کی دہائی میں ایک کرکٹر یا جریدوں میں احمقانہ داستانوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ، بے ہودہ ریکارڈ کے باوجود برطانیہ میں کچھ شخصیات اب بھی خان کی حمایت کررہی ہیں۔
اخبار نے لکھا کہ عمران خان، 20 ویں صدی کے کرکٹر جنہوں نے خود کو 21 ویں صدی کے بظاہرنیم اسلام پسند جو کہ حقیقت میں ہیں نہیں کے طور پر پیش کیا ۔
ان امیدواروں میں شامل تھے جو آکسفورڈ یونیورسٹی کا اگلا چانسلر بننے کے لیے مقابلہ کر رہے تھے لیکن پاکستان کے سابق وزیر اعظم، جو اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کرس پیٹن کی جگہ لینے کے قابل نہیں کیونکہ وہ خود پسند ہیں۔
انہوں نے آکسفورڈ کے طلبا کو کہا تھااب وقت آگیا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی دنیا کے تنوع کی عکاسی کرے۔
خان کو اگلے چانسلر کے طور پر منتخب کرنا نہ صرف دنیا کے کونے کونے سے نوجوانوں کو متاثر کرے گا بلکہ یہ آکسفورڈ کو مساوی مواقع فراہم کرنے کی ایک روشن مثال کے طور پر بھی بلند کرے گا،خان اس ماہ 72 سال کے ہو جائیں گے ۔
کیا سابق طلباء اور عملہ جو آکسفورڈ کے الیکٹورل کالج کو تشکیل دیتے ہیں۔
کیا وہ آکسفورڈ کو ہزار سالہ تاریکی سے باہر نکالنے اور ایک ایسے امیدوار کو ووٹ دے کر ایک جامع ادارہ بنانے کے لیے تیار ہیں جس نے طالبان کی کھلے دل سے تعریف کی تھی وہ طالبان جنہوں نے حال ہی میں افغانستان کی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔
کیا وہ ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کرکے نوجوانوں کو متاثر کرنے کے لیے تیار ہیں جس نے 2012 میں طالبان کی مقدس جنگ کو اس اسپتال میں جواز بخشا جہاں ملالہ یوسفزئی کو زندگی بچانے والا ہنگامی علاج ملا تھا؟وہ لوگ جو خان کو 1980 کی دہائی میں ایک کرکٹر یا چھوٹے میگزینوں میں ان کی احمقانہ داستانوں کے طور پر یاد کرتے ہیں، وہ گزشتہ دو دہائیوں میں ان کی تبدیلی کو ایک مبہم مذہبی شخصیت کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
2018 میں وہ وزیر اعظم مبینہ طور پر ہیرا پھیری کےووٹ سے منتخب ہوئے جسے پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے طاقتور ادارےکی واضح ، جارحانہ، اور بے جا مداخلت قرار دیا۔
مران خان نےمغربی اقدار کی مذمت کی اور آزادی اظہار رائے پر تنقید کی۔ گزشتہ اکتوبر میں، پاکستان کے الیکشن کمیشن نے خان کو توشہ خانے کے مقدمےکا مجرم قرار دیا، انہیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار دیا، اور انہیں پانچ سال کے لیے عوامی عہدے سے روک دیا۔
فنانشل ٹائمز کی طرف سے شائع ہونے والی بعد کی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا کہ مالی فراڈ کے الزام میں امریکی جیل میں 291 سال کی ممکنہ سزا کا سامنا کرنے والے ایک پاکستانی نے ایک فلاحی پلیٹ فارم کے ذریعے خان کی پارٹی کو لاکھوں ڈالر کی رقم جمع کی تھی۔