حیدرآباد(بیورو رپورٹ)پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ماضی میں عدالتیں آمر کی ربڑ اسٹیمپ بنیں،برابری کی بنیاد پر عدالتیں بنائی جائیں پھر چاہے اسے بینچ یا آئینی عدالت کا نام دیں،عدالتیں اپنی مرضی کے مطابق چلیں گی تب تک عوام کو انصاف نہیں ملے گا،اب آپ کو ہمارا مطالبہ ماننا پڑے گا اور برابری کی عدالتیں بنانے ہڑیں گیا،آئینی ترمیم کی میری آخری کوشش ناکام ہوئی تو ملک اور جمہوریت کے لئے دعا مانگنی چاہیے،متنازع راستہ اختیار کرنا نہیں چاہتا،جب تک یہ عدالتیں اپنی مرضی کے مطابق چلیں گی تب تک عوام کو انصاف نہیں ملے گا،برابری کی عدالتیں بنانی پڑیں گی،جسٹس فائز عیسی کو سلام،۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے شہداء سانحہ کارساز کی یاد میں ہٹڑی بائی حیدرآباد کے مقام پر منعقد ہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
جلسے سے گورنر کے پی کے فیصل کریم کنڈی،صوبائی وزیر سعید غنی،اسپیکر سندھ اسمبلی اویس قادر شاہ اور ر وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ،نثار کھوڑو،شرجیل انعام میمن،جام خان شورو . دیگر نے خطاب کیاسمیت صوبائی اور ضلع رہنماء صغیر قریشی بھی موجود تھے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ انہوں نے مزید کہا کہ حیدرآباد کے جیالوں نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنے شہداء کو نہیں بھولے،ہم شہید بی بی کے نامکمل مشن کو مکمل کریں گے،مجھے دوبارہ اسلام آباد پہنچنا ہے اور مولانا صاحب سے ملنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہید رانی جب پاکستان آئی تھیں اور جس منشور پر وہ مہم چلا رہی تھیں اس منشور میں آمریت کو ختم کرنا اور جمہوریت و آئین کو بحال کرنا موجود تھا،بی بی رانی کی محنت کے نتیجے میں اٹھارویں آئینی ترمیم کی صورت میں منشور پر عملدرآمد کر کے صوبوں کو ان کے حق دلوائے،اسی منشور اور میثاق جمہوریت میں ان کا ایک اور مطالبہ تھا کہ وفاقی عدالت بنانی تھی جس میں تمام صوبوں کی نمائندگی ہونی چاہیے اور منشور میں آئین کے تحفظ کا نکتہ بھی شامل تھا، پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں، تنظیم اور حیدرآباد شہر کے لوگوں کا شکر گذار ہوں،کیوںکہ آپ نے 18 اکتوبر کے جلسہ کو تاریخی جلسہ بنا دیا ہے، آج ہم سب 18اکتوبر 2007کو ہونے والے سانحے کو یاد کر رہے ہیں جب شہید محترمہ پاکستان واپس آئی تھیں،بی بی اگر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کراچی پہنچیں تھیں تو اس لئے پہنچی تھیں کہ آیک آمر راج کر رہا ہے،شہید محترمہ جب واپس آئیں تو اس لئے آئیں کہ پالستان کے عوام روٹی کپڑا اور مکان کا مطالبہ کر رہے تھے،وہ اپنے والد شہید قائد کے نامکمل مشن کو مکمل کرنے آئی تھیں،شہید بی بی کا یہ فلسفہ اور مطالبہ اس لئے سامنے آئے کہ جتنا بی بی ان عدالتوں کا اصل چہرہ جانتی تھیں اور کوئی نہیں جانتا تھا،وہ جانتی تھیں کہ پاکستان بننے سے لے کر اب تک جس عدالت نے آمر کا راستہ روکنا تھا وہی وہ عدالت امر کی ربڑ اسٹیمپ بنیں،جب بھی موقع آیا ان جج صاحبان نے آمر کا ساتھ دیا لیکن دستور کا ساتھ نہیں دیا،اسی لئے انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ آئینی عدالت بنا کر رہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ 18 اکتوبر کو دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ ہوا جس دن کارکنوں نے شہید بی بی کی جان کو بچانے کے لئے اہنی جانوں کی قربانی دی، میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ آپ نے بہت انتظار کیا،ہم نے یہ وعدہ 2006 میں کیا تھا، 2008 سے 2013 تک ہم یہ وعدہ پورا نہیں کر سکے،اب میں وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہوں لیکن میں بی بی کا وہ وعدہ پورا کرنے جا رہا ہوں،یہ لوگ جو تنقید کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آئینی عدالت کا کانسیپٹ پاکستان میں نہیں چل سکتا ،جب میں ان سے پوچھتا ہوں کیوں ایسا بول رہے ہو تو کہتے ہیں قیدی نمبر فلاں فلاں یہ کہتا ہے،یہ جو آئینی عدالت ہے ون یونٹ ختم کرنے کا مطالبہ ہے پاکستان کے عوام اس کے ساتھ کھڑے ہیں،سب کا مطالبہ ہے کہ نہ کھپے نہ کھپے ون یونٹ نہ کھپے اور مطالبہ ہے کہ سب کو فوری انصاف ملے،یہ مطالبہ تو قائد اعظم محمد علی جناح کا مطالبہ تھا،قائد اعظم محمد علی جناح نے گول میز کانفرنس میں کہا تھا کہ کسی ایک عدالت کے پاس اتنا اختیار نہیں ہونا چاہئیےیہ تو شہید بی بی کا نہیں اس ملک کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کا مطالبہ تھا ،آپ کو یاد یہ جسٹس دراب پٹیل کون تھے، وہ اصول پرست جج تھے، وہ آئین کا تحفظ کرنے والا آدمی تھا،وہ ان بہادر ججوں میں سے تھے جنہوں نے رولنگ دی تھی کہ قائد عوام شہید بھٹو بے قصور ہیں اور کہا تھا کہ یہ ظلم ہے یہ زیادتی ہے کہ شہید قائد کی غیر موجودگی میں فیصلہ کیاجسٹس پٹیل صاحب اگر پی سی او پر حلف لیتے تو وہ بھی افتخار چوہدری کی طرح ہو سکتے تھے،اگر وہ صرف اور صرف اپنی کرسی کے بارے میں سوچتے تو وہ بھی ایک آمر کے جج بن سکتے تھے،لیکن انہوں نے چیف جسٹس کی کرسی کو لات مار کر کسی آمر کا جج بننے کو ترجیح نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ یہ جدوجہد پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اس مشن کو پورا کریں گے،عوام پوچھتے ہیں کہ آپ نے قائد عوام کو تختہ دار پر لٹکایا، شہید بی بی کو انصاف نہیں دیا، آپ نے آمروں کو راستہ دیا،جب تک یہ عدالتیں اپنی مرضی کے مطابق چلیں گی تب تک عوام کو انصاف نہیں ملے گا۔