• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری، کس نے کیا کھویا کیا پایا؟؟

اسلام آباد ( تجزیہ ۔ رانا غلام قادر )سینٹ اور قومی اسمبلی نے26 ویں آئینی تر میم کے بل کی منظوری سے پارلیمانی تاریخ کاا یک نیا باب رقم ہوا ہے۔لوگوں کے ذہن میں اس تر میم کی منظوری کے بارے میں ایک سوال ابھرا ہے کہ اس سارے عمل میں کس نے کیا کھویا ۔۔کیا پا یا ؟؟؟۔ اس کی منظوری سے پارلیمنٹ نے اپنا وہ اختیار اور وقار دوبارہ حاصل کرلیا ہے جو اس نے ماضی کے ایک چیف جسٹس کے دباؤ کے تحت 19ویں تر میم کے تحت کھو دیا تھا۔ یہ میثاق جمہوریت کے ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ گویا یہ تر میم پارلیمنٹ کی بطور ادارہ کامیابی ہےججز کی تقرری میں اب پارلیمنٹ کااختیار پوسٹ آفس کا نہیں، بلکہ پارلیمنٹ کی اجتماعی بصیرت کا مظہر ہوگا۔ ججز کی تقرری میں اب پارلیمنٹ کا اختیار پوسٹ آفس کا نہیں، بلکہ پارلیمنٹ کی اجتماعی بصیرت کا مظہر ہوگا فضل الر حمن کو قائل کرنے میں بلاول کی کا میاب شٹل ڈپلومیسی ، جے یو آئی کی اہمیت اسٹریٹجیک بن گئی شہباز شریف نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لچک کا مظاہرہ کیا ، کئی تبدیلیوں کو تسلیم کرلیا پی ٹی اآئی کی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت اور تحفظات کے ازالے کے باوجود ترمیم کی مخا لفت نا قابل فہم ہے۔ پارلیمنٹ تمام اد اروں کی ماں ہے ۔ پارلیمنٹ کی بالادستی پر ملک میں عمومی اتفاق پایا جا تا ہے۔19ویں تر میم کے نتیجے میں ججز کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کا کردار محض پوسٹ آفس کا رہ گیا تھاجسے اب متوازن بنایا گیا ہے۔ اب بارہ رکنی جوڈیشل کمیشن سپر یم کورٹ کے ججز کی تقرری کرے گا۔اس کمیشن کے سر براہ چیف جسٹس آف پا کستان ہوں گے۔ان کے علا وہ پریزائیڈنگ جج اور تین سینئر موسٹ جج اس کے ممبر ہوں گے۔دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ اس کے رکن ہوں گے۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف ۔ اٹا ر نی جنرل آف پا کستان اور پا کستان بار کونسل کے نامز وکیل بھی اس کے ممبرہوں گے۔اس کا اچھا پہلو یہ ہے کہ سینٹ اور قومی اسمبلی کے جو چار ارکان نامزد کئے جائیں گے ان میں سے دو کا تعلق حکومتی بنچوں اور دو کا اپو زیشن سے ہوگالھذا یہ تاثر دینا کہ اس ترمیم کا مقصد حکومت کا اثر بڑھانا ہے درست نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کی تشکیل کا اختیار بھی جو ڈیشل کمیشن کو دیاگیا ہے۔ا س بنچ میں تمام صو بوں کی نما ئندگی کو یقینی بنایاگیا ہے۔ چیف جسٹس آف پا کستان کی تقرری اب سینئر موسٹ جج کی بجا ئے تین سینئر تر ین ججز میں سے کی جا ئے گی۔اس کی سفارش بارہ رکنی خصوصی پار لیمانی کمیٹی کرے گی۔چونکہ اس میں قومی اسمبلی اور سینٹ کی نمائندگی ہوگی لھذا یہ پارلیمنٹ کی اجتماعیبصیرت کا مظہر ہوگی کیونکہ اس بارہ رکنی کمیٹی میں تمام پار لیمانی جماعتوں کو متناسب نمائندگی کے فار مو لا کے تحت نمائندگی دی جا ئے گی۔چیف جسٹس کی تقرری کو تین سال کی مدت تک محدود کرنے اور عمر کی بالائی حد65سال مقرر کرنے کا فیصلہ ماضی کے ناخو شگوار تجربہ کی روشنی میں ایک صائب فیصلہ ہے۔ اس تر میم کے بعد پارلیمنٹ کا کھویا ہوا وقار بحال ہوگا۔دوسرے ادارے کی جانب سے پارلیمنٹ کے دائرہ اختیارات میںمداخلت اور تجاوزکا سلسلہ رک جا ئے گا۔ پارلیمنٹ کے مضبوط ہونے کے نتیجے میں منتخب حکومت کو بھی استحکام ملے گا۔26ویں آئینی تر میم کی کا میابی کا سہرا خاص طور پر چیئر مین پا کستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو جا تا ہے جنہوں نےجے یو اآئی کے امیر مو لا نا فضل الر حمن ٰ کو قائل کیا اور ان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان شٹل ڈپلومیسی کرکے متنازعہ نکات کی تحلیل اور مشترکہ نکات پر اتفاق رائے پیدا کرایا۔اس سارے عمل میں مو لا نا فضل الر حمن نے کلیدی کردار ادا کیا اور ان ٰ کا گھر سیا سی سر گر میوں کا مرکز بنا رہا۔ پانچ ممبران سینٹ اور اآٹھ ممبران قومی اسمبلی کی قلیل تعداد کے با وجود ان کی اسٹریٹیجک اہمیت اسلئے بن گئی کہ ان کے تعاون کے بغیر دو تہائی اکثریت کا حصول ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی پو زیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈرافٹ میں کئی تبدیلیاں کرائیں ۔ عملی طور پر انہوں نے پی ٹی اآئی کے تحفظات کو بھی دور کرادیا۔

اہم خبریں سے مزید