اسلام آباد (رپورٹ حنیف خالد) 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد عدالتوں نے آئینی درخواستوں کی سماعت روک دی۔
ملک بھر کی عدالتوں کےزیرسماعت 40فیصد درخواستیں آئندہ ماہ آئینی بنچوں کو ٹرانسفر کرنے کا عمل شروع کردیا جائے گا ۔
سپریم کورٹ اور پانچوں ہائی کورٹس کی آئینی درخواستوں، رٹ پٹیشنز کے فیصلے آئینی بنچ کریں گے ۔
آئینی ترمیم کے بعد 20لاکھ سے زائد کیسوں کے سائلین کو کم وقت میں انصاف کی فراہمی ممکن ہوگی۔
ذرائع کے مطابق ضلع، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میںزیر التواء مقدمات کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہے اور اس آئینی ترمیم کی منظوری نے عوام کو یہ امید بندھا دی ہے کہ اب مقدمات کے فیصلوں میں تیزی آئے گی۔
اس کی دو وجوہات ہیں ملک کی عدلیہ، ڈسٹرکٹ عدالتوں، ہائی کورٹوں، سپریم کورٹ میں موجود کم وبیش 40فیصد مقدمات آئندہ ہفتے تشکیل پانے والے آئینی بنچوں میں منتقل ہو جائیں گے اور دوسری وجہ ہائی کورٹس کے ججوں کی کارکردگی کا جوڈیشل کمیشن وقتاً فوقتاً جائزہ لیا کرے گا۔
لوگوں کو جلد انصاف ملنے لگے گا کیونکہ سوموٹو کیس فرمائشی درخواستوں اور رٹ پٹیشنوں جن میں بال کی کھال اتاری جاتی ہے ان میں عوام کو دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی عوام کی بہتری ہے۔
خاندانی وراثت، زمینوں کے جھگڑے کئی کئی عشروں میں ان کے فیصلے اب تک نہیں ہوئے۔ 26 ویں آئینی ترمیم نافذ ہونے سے ملک بھر کے عوام کو توقع ہے کہ اس ترمیم کے نتیجے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ جس میں مقدمات کی سماعت میں تیزی آئے گی اور انصاف کے تقاضے بہتر طور پورے ہوں گے یہ امر یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ آئین کے آرٹیکل37ڈی میں یہ بات درج ہے کہ ریاست سستے ، سہل اور حصول انصاف کو یقینی بنائے گی۔
پاکستان کے آئین کے مطابق نہ جج سٹیٹ ہوتا ہے نہ کوئی اور۔ آئین کے آرٹیکل 7 میں واضح کر دیا گیا ہے کہ سٹیٹ سے مراد کیا ہے، آرٹیکل 7 میں سٹیٹ کی تعریف میں کہا گیا کہ مملکت سے وفاقی حکومت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) ، صوبائی حکومت، کوئی صوبائی اسمبلی اور پاکستان میں ایسی مقامی ہیت ہائے مجاز (اتھارٹی )مراد ہے جن کو ازروئے قانون کوئی محصول (ٹیکس) یا چونگی عائد کرنے کا اختیار حاصل ہو۔