• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور

جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے، تب سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے کہ جو اس دُنیا میں آیا ہے، اُسے ایک دن اس عالمِ فانی سے کُوچ ضرور کرنا ہے، مگر بعض شخصیات ایسی ہیں کہ جو اس عارضی دُنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی لوگوں کے دِلوں پر حُکم رانی کر رہی ہیں اور ان نابغۂ روزگار شخصیات میں شاعرِ مشرق اور مفکّرِ اسلام، علّامہ اقبالؒ بھی شامل ہیں۔ ان کا شمار برِصغیر کی اُن نام وَر ہستیوں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور سربلندیٔ اسلام کے لیے وقف کر دی۔ 

بِلاشُبہ علاّمہ اقبال ایک مَردِ درویش، مَردِ کامل، دُنیائے اسلام کے عظیم مفکّر، اسکالر اور شاعر تھے۔ تاہم، اُن کی عظمت و مقبولیت کی اہم وجہ اُن کی شاعری ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف خوابِ غفلت میں مبتلا برِ صغیر کے مسلمانوں کو بیدار کیا، بلکہ اُنہیں اُن کا درخشندہ اور تاب ناک ماضی بھی یاد دلایا اور انہیں یہ باور کروایا کہ اُن کی یہ حالت قرآن سے رُو گردانی کے سبب ہے۔ 

وہ عارفِ قرآن تھے اور اُن کا کلام معرفتِ قرآن کی عکّاسی کرتا ہے۔ شاعرِ مشرق نے جو فلسفۂ حیات پیش کیا، اُس کی بنیاد قرآن ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ’’اگر میری شاعری میں کوئی بات خلافِ قرآن ہو، تو قیامت کے دِن نبیٔ کریمؐ کے پائوں کا بوسہ لینے سے محروم کر دیا جائوں۔‘‘سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے قرآنِ پاک کی تفسیر بیان کی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری میں متعدد مقامات پر قرآن پاک کے الفاظ، تراکیب اور بعض اوقات پوری پوری آیات ملتی ہیں۔ جیسا کہ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید…کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فیکون۔ 

بیرسٹر مرزا جلال الدّین اپنے ایک مضمون میں علاّمہ اقبالؒ اور قرآن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ مطالبِ قرآن پر ہمیشہ ان کی نظر رہتی۔ کلامِ پاک پڑھتے، تو ایک ایک لفظ پر غور فرماتے۔ نماز کے دوران جب قرآن پاک بہ آواز پڑھتے، تو آیاتِ قرآنی پر فکر مرتکز ہو جاتی۔ چہرے کے تاثرات غمی و خوشی کا اظہار کرتے۔ بعض اوقات اتنا روتے کہ آنسوئوں کی جھڑیاں لگ جاتیں۔ آواز اتنی پُرکشش کہ سُننے والوں کا دِل بھی ایک پُرکیف تاثیر میں ڈُوب جاتا۔‘‘

علاّمہ اقبال کے کلام میں معارفِ قرآن کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن ہے اور موضوعِ قرآن ان کی شاعری کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں؎ آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم…حکمت ِاو لایزال است و قدیم…حرفِ او را ریب نے، تبدیل نے…آیہ اش شرمندۂ تاویل نے۔ ایک اور جگہ یوں فرماتے ہیں کہ ؎گر تو می خواہی مُسلماں زیستن…نیست ممکن جز بقرآں زیستن۔ علاّمہ اقبال بڑی دل سوزی اور شفقت کے ساتھ قرآنِ پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ کلامِ پاک پڑھتے جاتے اور روتے جاتے۔ حتیٰ کہ اوراقِ مصحف تر ہو جاتے اور انہیں دُھوپ میں خُشک کیا جاتا۔ 

وہ فرمایا کرتے کہ ’’جب تک تم یہ نہ سمجھ لو کہ قرآن تمہارے قلب پر اسی طرح اُترتا ہے، جیسا کہ رسول اللہؐ کے قلبِ اقدس پر نازل ہوا تھا، تلاوت کا مزہ نہیں۔‘‘ انہوں نے اس مفہوم کو ’’بالِ جبریل‘‘ میں اس طرح واضح کیا کہ؎ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب…گرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف ۔ 

اسی طرح علاّمہ نے ایک مرتبہ سیّد سلیمان ندوی کو لکھا کہ ’’میرا مسلک وہی ہے، جو قرآن کا ہے۔‘‘یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ دوسری گول میز کانفرنس کے موقعے پر ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کے ایک نمائندے نے اُن سے پوچھا کہ ’’آپ کانفرنس میں کیا خاص بات لے کر شریک ہو رہے ہیں ؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ’’میرے پاس قرآن کے سوا کچھ نہیں، اسی کو پیش کروں گا۔‘‘

علّامہ اقبال مسلمانوں کو ان کا شان دار اور تاب ناک ماضی یاد دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کی جو حالت ہے، وہ تارکِ قرآں ہونے کی وجہ سے ہے۔ اگر مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں قرآنِ پاک سے راہ نمائی حاصل کرنا ہو گی۔ ؎وہ زمانے میں معزّز تھے مُسلمان ہوکر…اور تُم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر۔ 

علاّمہ اقبال کا کتاب اللہ پر ایمان اس درجہ راسخ تھا کہ وہ عصری مسائل کا حل قرآنِ پاک کی آیات میں تلاش کرتے اور انہیں دُنیا کے سامنے پیش کرتے۔ وہ حقیقی معنوں میں قرآنِ مجید کو رُشد و ہدایت سے لب ریز ایک بحرِبے کراں سمجھتے اور مسلمانوں سے کہتے کہ اگر اُنہیں اپنی حالت بدلنی ہے، دُنیا میں شان سے جینا ہے اور اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہے، تو پھر ایک ہی راستہ ہے کہ قرآنِ مجید میں غوطہ زن ہو جائو۔ اُن کا ایک شعر ہے کہ ؎یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن…قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن۔

المختصر، علاّمہ اقبال نے اپنی زندگی قرآن مجید پر غوروفکر کرتے ہوئے گزاری۔ قرآنِ پاک کے مطالعے سے انہیں ایک نیا یقین، ایک نئی روشنی اور ایک نئی قوّت و توانائی میسّر آتی۔ جُوں جُوں ان کا مطالعۂ قرآن بڑھتا گیا، اُن کی فکری بلندی پروان چڑھتی گئی۔ بلاشُبہ وہ ایک عظیم عارفِ قرآن تھے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین، ثمّ آمین۔

سنڈے میگزین سے مزید