• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتجاج کی کال ملک کو ڈی ریل کرنے کی کوشش، پاک بھارت تعلقات بہتر ہونے، کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنا چاہئے، مجھے وزیراعظم بننے سے روکنے کی بات سچ نہیں، نواز شریف

لندن(نیوز ایجنسیاں)مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے24نومبر کو احتجاج کی کال ملک کو ڈی ریل کرنے کی کوشش ہے مگر یہ لوگ کامیاب نہیں ہوں گے ۔نواز شریف اپنی بیٹی اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ لندن سے وطن واپسی کے لیے ایون فیلڈ سے ائیرپورٹ کیلئےروانہ ہوئے جہاں روانگی سے قبل انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا کرنے والوں کو جھوٹا ہی کہیں گے،24نومبر کو احتجاج کی کال ملک کو ڈی ریل کرنے کی کوشش ہے، احتجاج کی کال دینے والے کامیاب نہیں ہوں گے۔ قبل ازیں ایک نجی ٹی وی کوانٹرویو میں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہاہے کہ یہ ہرگز سچ نہیں ہے کہ انہیں وزیراعظم بننے سے روکا گیا، طے کرلیا تھا کہ اکثریت نہیں ملی تو وہ وزیراعظم کے امیدوار نہیں ہوگے، اس میں کوئی راز نہیں۔بھارت کے بارے میں مجھے بردباری کا مظاہرہ اور جارحانہ بیانات سے گریز کرنا ہوگا، خطے کا سینئر ترین سیاستدان ہونے کے ناطے میں کوئی غلط فہمی نہیں چاہتا۔عمران خان نے میری بات مانی ہوتی تو ہمیں تکالیف نہ اٹھانی پڑتیں۔نواز شریف نے سیاسی کشیدگی کا ذمے دار عمران خان کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے جمہوریت کو سمجھا اور نہ اسکی بہتری کے لیے کچھ کیا، بھارتی کرکٹ ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ آنے کے فیصلے پر ان کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنا چاہئے، اگر ایسی صورتحال ہوتی کہ ہمیں کھیلنے کے لیے بھارت جانا ہوتا تو میں چاہتا کہ پاکستان وہاں جانے والی پہلی ٹیم ہو، اس لیے بھارتی ٹیم کو پاکستان جانا چاہئے، اس سے تعلقات بہتر ہونگے۔بھارت کی جانب سے طویل عرصے سے پاکستان پر عائد کردہ سرحد پر دہشت گردی سمیت دیگر الزامات پرانہوں نےکہاکہ ’ہم خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔انہوں نے ملک کےحالات کا ذمہ دار عمران خان کوقرار دیتے ہوئےکہا کہ انہیں جمہوریت کو فروغ دینے اور استحکام بخشنے کا سب سے بڑا موقع ملا، لیکن انہوں نے جمہوریت کو سمجھا نہ اس کے استحکام کے لیے کچھ کیا۔نواز شریف نے کہاکہ ’مجھے نہیں یاد کہ میں نے انہیں ایک یا دو مرتبہ سے زیادہ اسمبلی میں دیکھا ہو، انہوں نے سارا وقت اسمبلی سے باہر دھرنوں میں گزارا، ان کے ارکان نے استعفے دیے، انہوں نے 35 پنکچر کیس کے نام سے ہمارے خلاف مہم شروع کی جسے اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک نے اٹھاکر باہر پھینک دیا، انہوں نے مولانا طاہر القادری سمیت دیگر لوگوں کے ساتھ اتحاد بنایا، کیا یہ جمہوریت تھی؟۔موجودہ حکومت میں جمہوری آزادیاں سلب کیے جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کی حکومت میں اس سے بھی بدتر صورتحال ہوئی۔انہوں نے کہا کہ ’میں نے اپنا وقت جمہوریت کے استحکام پرصرف کیا، الیکشن جیتنے کے بعد میں عمران خان کے گھر گیا اور انہیں مل بیٹھ کر پاکستانی عوام کی خدمت دعوت دی، انہوں نے مجھے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا لیکن کچھ دن بعد انہوں نے اپنے دھرنے کا اعلان کر دیا۔ نواز شریف نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہاس کے ذمے دار وہ ہیں، آج ہم مل کر کام کررہے ہوتے اگر اس وقت انہوں نے میری بات سنی ہوتی جب میں ان کے گھر گیا تھا۔نواز شریف نے کہا کہ’ 2013 کے انتخابات کے بعد ان کی پارٹی کو عمران خان کی حمایت کی بالکل بھی ضرورت نہیں تھی لیکن انہوں نے ملک اور جمہوریت کی خاطر عمران خان کی جانب امن کا ہاتھ بڑھایا تھا۔انہوں نے کہا’اگر انہوں نے منصفانہ اور شفاف طریقے سے انتخابات جیتے ہوتے اور ان نظریات پر کام کیا ہوتا، تو ہم مل کر خدمت کر رہے ہوتے، لیکن انہوں نے میری بات نہیں سنی اور ہمیں تکلیف اٹھانی پڑی۔جب پوچھا گیا کہ فروری کے انتخابات کے بعد وہ وزیراعظم کیوں نہیں بنے تو نوازشریف نے کہا کہ یہ الیکشن سے پہلے ہی واضح ہوچکا تھا کہ ’اگر مجھے اکثریت نہیں ملے گی تو میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار نہیں بنوں گا،اس میں کوئی راز نہیں ہے۔اس سوال پر کہ کیا یہ سچ ہے کہ انہیں عہدہ نہ لینے کا کہا گیا؟ نوازشریف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ سچ نہیں ہے۔اس سوال پر کہ وہ انتخابی نتائج کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں؟ کیا یہ بڑا دھچکا تھا؟ نواز شریف نے ذاتی جذبات کا اظہار کیے بغیر کہا کہ انتخابی نتائج ان کی توقعات سے کم تر تھے۔ موجودہ حالات میں سیاسی سرمایہ کھونے کے بعد اپنے مستقبل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کیا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ مستقبل کیا ہے، اب میری توجہ اپنی پارٹی کو منظم اور چیزوں کو ٹھیک کرنے پر مرکوز ہے، میں پارٹی کو مضبوط بنانے کے لئے مختلف مقامات کا دورہ کروں گا، مجھے امید ہے کہ حالات بہتر ہوں گے اور لوگ دیکھیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا دیا ہے‘۔

یورپ سے سے مزید