طلبا کی قابلیت کو جس پیمانے سے ناپا جاتا ہے، وہ پیمانہ غلط ہے، جیسے کولہو کے بیل کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے ،وہ سار ادِن مشقت کرتا ہے اور اپنے دائرے سے باہر نہیں نکلتا۔ امتحانات ، تعلیمی نظام میں ایک اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ تعلیمی نظام کی طرح ہمارا امتحانی نظام بھی وقت کے ساتھ بہتر ہونے کے بجائے کمزور ہوتا جارہا ہے۔
تخلیقی صلاحیت، اخلاق و کردار اور باہمی مہارتوں( Interpersonal Skills) کو دیکھا ہی نہیں جاتا۔ تعلیمی نظام کے ذریعےنو جوانوں کو صرف دائرے کا سفر پوراکروارہے ہیں۔
دائرے میں گھومنے کا ہی نتیجہ ہے کہ نہ کوئی تخلیقی صلاحیت ابھری اور نہ ہی کوئی ایجاد سامنے آتی ہے ، اگر کوئی نوجوان تحقیق و ایجادات کربھی لے تو اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔
تحقیقی کاموں کے لیے کروڑوں ،اربوں روپے کا فنڈ مختص ہے لیکن نتیجہ کچھ نہیں ۔وجہ یہ ہے کہ جس بچے کوسولہ سال تک رٹہ لگوانے اور نمبر لینے کی پریکٹس کروائی جاتی ہے وہ اچھا محقق اور موجد کیسے بن سکتا ہے؟اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کے پرکھنے کا پیمانہ بھی غلط ہے۔جس دِن یہ درست ہوگیا تو پھربچے بھی قابل اور باصلاحیت نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔
یاد رکھیں ! زندگی کے مسائل کتاب کے مسائل سے بہت مختلف ہوتے ہیں ۔کتاب میں آپ فیثا غورث کو حل کرتے ہیں لیکن زندگی میں آپ نے اس سے زیادہ سخت حالات کو جھیلنا ہوتا ہے ،چیلنج کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ کوئی تکلیف آگئی ہے تو اس کو سہنا پڑتا ہے۔
والدین اسی کو کامیابی سمجھنے لگتے ہیں کہ بچے کا ایڈمیشن ہوگیا ، وہ اچھے نمبرز لے رہا ہے ،بس یہ کافی ہے ۔آنے والی زندگی کے مسائل کو کیسے حل کرنا ہے ، ایک اچھا انٹرپینور کیسے بننا ہے اور معاشرے کے لیے کوئی خدمت کیسے سرانجام دینی ہے؟یہ سوچ بالکل ختم ہوگئی ہے۔
ہمارا یہ نظام تعلیم گوروں کا مرتب کردہ ہے۔ یہ سب جاب مائنڈ سیٹ کے لیے بنایا گیا تھا۔ انہیں اس وقت ایسے افراد چاہیے تھے جو ذہنی طورپر غلام ہوں۔وہی چیز چلتی رہی اور آج تک چل رہی ہے۔
اس نظام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ محقق ، موجد اور کاروبار ی ذہن والے انسانوں کو پیدانہیں کررہا، جبکہ ہم نے اگر اپنے معاشرے کوترقی دینی ہے تو ایسے افراد تیا ر کرنے ہوں گے جو دوسروں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کریں۔ اسی طرح جو فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ ہیں وہ بھی قابلیت و صلاحیت سے مزین ہوں ۔صرف لفظی دعوئوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ عملی مہارت دکھانا ہوگی۔
ذیل میں ان تمام قابلیتوں کی فہرست دی جارہی ہے جن کی آج کل کے جدید دور میں ضرورت ہے اور کوئی بھی نوجوان ان کی بدولت ترقی کرسکتا ہے۔
پریزنٹیشن اینڈ کمیونیکیشن : اپنے خیالات کوتحریر و تقریر کی صورت میں دوسروں کے سامنے خوب صورت انداز میں پیش کرنا۔ لوگوں سے عمدہ بات چیت
انٹرویو : میٹنگ میں شرکت کا طریقہ۔ انٹرویو دینے کا طریقہ ،بات چیت کا طریقہ۔ آپ جو ہیں ، وہ دوسروں کو کس طرح بتائیں گے۔
لیڈرشپ اسکلز: اپنے ماتحت افراد سے شاندار کارکردگی کیسے دلوانی ہے؟لوگوں کو کیسے ڈیل کرنا ہے؟ٹیم کو کیسے لے کر چلنا ہے؟
مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت :حوصلہ اور ہمت نہ ہارنا۔ حالات کے خوف کو خود پر مسلط نہ کرنا۔ بڑے سے بڑے مسئلے کو بہترین انداز میں حل کرنا
لوگوں کو مینج کرنا: ہر قسم کی طبیعت اور مزاج والے انسانوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے؟ہر ایک کو اس کی حیثیت کے مطابق مقام کیسے دینا ہے؟
خود اعتمادی : بلا وجہ کے ڈر و خوف کے دام میں نہیں آنا ۔اپنی خوداعتمادی سے خود کویہ ثابت کرنا کہ آپ اس مقام کے لیے سب سے زیادہ اہل ہیں۔
تخلیقی صلاحیت: نئے خیالا ت سوچنا ۔ لوگوں سے کچھ ہٹ کر کرنا۔ مسائل میں بھی نئے مواقع تلاش کرنا۔بہترین حل ڈھونڈنا
تنقیدی سوچ: یہ کام ایسا کیوں ہے ؟اس میں کون کون سی خرابیاں اور خوبیاں ہیں؟ میں اس کام کو مزید بہتر انداز میں کیسے کیا جاسکتا ہے؟
ایموشنل انٹیلی جنس: اپنے جذبات پر قابو پانا ۔غصے ، خوف ، حسد پر کنٹرول۔ قوتِ برداشت ۔نفس کو لگام دینا ۔
فیصلہ سازی کی صلاحیت : سوچ سمجھ کر اور تجزیہ کرنے کے بعد فوری فیصلہ کرنا۔ تذبذب کی کیفیت کو ختم کرنا۔ اپنے فیصلے کی ذمہ داری بھی خود قبول کرنا۔ غلط فیصلے کو تسلیم کرلینا
مکالمہ بازی کی صلاحیت : دوسرے انسان کے مزاج کو سمجھ کر اس کے مطابق گفتگو۔ آوا ز سے زیادہ دلیل اونچی رکھنا۔ شائستہ انداز میں اختلاف رائے رکھنا۔
یہ تمام وہ صلاحیتیں ہیں جو تعلیمی اداروں کو پڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف پروفیشنل زندگی میں بلکہ پرسنل زندگی میں بھی شاندار ترقی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بنے بنائے معیار پہلے سے ہیں اور ہم اسی میں بچے کو فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین بچوں کو ان کی اہلیت کے مطابق میدانِ عمل لائیں۔
نئے آئیڈیاز اور ایجادات کی حوصلہ افزائی کریں۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، سمت کی کمی ہے۔ بچوں کو بہترین انسان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں بچپن سے سنیں ، ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
انسان مقناطیس کی طرح ہے ۔جیسے وہ خود ہے ویسی دنیا اکھٹی کرلیتا ہے۔آپ کے بچے میں موجود ٹیلنٹ جب پالش ہوگا تو وہ اپنے اردگرد اپنی طرح کی ایک دنیا اکھٹی کرلے گا اور اس کے لیے آگے بڑھنا و ترقی کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔