ابنِ آس محمد کااصل نام محمد اختر آس ہے۔ وہ ایک صحافی، بچوں کے مصنف، ڈراما نگار اور کہانی نویس ہیں۔17 ستمبر 1975 میں سیالکوٹ تحصیل ڈسکہ کے گاؤں سرنوالی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ پھر کراچی آگئے، یہاں اسلامیہ آرٹس کالج سے انٹر اور جامعہ کراچی سے گریجویشن کیا۔
ابن آس نے بچوں کے لیے اردو زبان میں سیکڑوں کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کے بچوں کے لیے ناول کتابی صورت میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ جن میں بھیانک آسیب، ملکہ نارانی ،نگیٹو کا پازیٹو، جنگلادمی، پر اسرار دنیا وغیرہ شامل ہیں۔
روزنامہ جنگ میں بچوں کے صفحے پر ان کا ناول بہ عنوان ’’خالو بھالو‘ ‘ شائع ہوا تھا۔ پیارے بچو! اس ہفتے سے ان کا نیا ناول ’’جاسوسی چکر‘‘ ملاحظہ کریں۔
بارش کا زور ٹوٹ ہی نہیں رہا تھا۔ رات خاصی ہو گئی تھی اور پچھلے دو گھنٹے سے مسلسل بارش ہو رہی تھی۔ ساحل سمندر کے قریب پوش آبادی میں سناٹے کا راج تھا۔ دور دور تک کوئی گاڑی بھی دکھائی نہیں دے رہے تھی ۔اتنی تیز بارش میں ویسے بھی کوئی ان بنگلوں سے نکلنے والا نہیں تھا۔
اس علاقے میں ہفتے کے آخری دن ہی رونق ہوتی تھی، مگر آج تو بدھ تھا۔ پھر اوپر سے بارش ہوگئی ،ا س لیے گیارہ بجے ہی ہر طرف سناٹا ہو گیا۔ البتہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کوئی ایک آدھ کار تیز بارش میں اپنی دھندلی روشنی میں تیزی سے گزر جاتی۔
کانسٹیبل جان محمد کی ڈیوٹی ساحل کے قریب کی چوکی پر تھی ۔رات کو بارہ بجے اس کی ڈیوٹی ختم ہو جا تی تھی۔ اس کے ساتھ موجود دوسرا کانسٹیبل چوکی پر ہی سوتا تھا ۔بارہ بجے دوسرے دو کانسٹیبل ڈیوٹی پر آجاتے اور جان محمد وہاں سے اپنے گھر روانہ ہو جاتا۔
اس کا گھر زیادہ دور نہیں تھا ۔کوئی ایک کلو میٹر کے فاصلے پر اس کا چھوٹا سا فلیٹ تھا۔ رات کی ڈیوٹی کے دونوں کانسٹیبلوں کو آنے میں آج دیر ہو گئی تھی۔ وہ ساڑھے بارہ بجے بارش میں بھیگتے ہوئے پہنچے تو جان محمد کا ساتھی کانسٹیبل اس وقت تک گہری نیند سو چکا تھا۔
’’ بہت دیر لگادی آنے میں ۔آدھے گھنٹے سے انتظار کرر ہا ہوں ۔‘‘ اس نے مصنوعی ناراضی سے کہا ۔
ایک کانسٹیبل نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’ کیا کریں یار ۔بائیک خراب ہو گئی ۔گھسیٹتے ہوئے لا رہے ہیں ۔‘‘
جان محمد نے پریشان ہو کر پوچھا ،’’ اس کا مطلب ہے آج تم مجھے گھر نہیں چھوڑو گے ۔۔؟‘‘
اکثر اسے رات کی ڈیوٹی والے کانسٹیبل اپنی بائیک پر گھر چھوڑ دیتے تھے ۔
’’ کیسے چھوڑیں گے ۔۔بائیک ہی جواب دے گئی۔ ایک کام کر ،بارش بہت تیز ہو رہی ہے ۔آج گھر مت جا ،یہیں چوکی پر سوجا ۔۔‘‘
’’ نہیں یار، میں رک نہیں سکتا ۔۔میں جا رہا ہوں ۔۔بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘
’’ اتنی بارش میں کیسے جائے گا ۔۔؟‘‘ دوسرے کانسٹیبل نے پوچھا۔
اس نے ہنس کر کہا ،’’ پیدل چلاجاؤں گا یاراس بہانے بارش میں نہاتے ہوئے چہل قدمی ہو جائے گی ۔بہت زمانہ ہو گیا ۔بارش میں نہایا نہیں ہوں ۔۔‘‘
چوکی کا چارج انہیں سونپ کر وہ چوکی سے روانہ ہو گیا ۔بارش مزید تیزہو گئی تھی۔ وہ پیدل ہی پیدل اپنے گھر کی طرف چل دیا۔
سڑکیں سنسنان تھیں اور بارش کا زور اچانک تیز ہو گیا ۔دور دور تلک اندھیرا ہی اندھیرا تھا ۔۔بارش شروع ہوتے ہی اس علاقے میں بھی بجلی چلی گئی تھی۔ ابھی وہ نصف کلو میٹر ہی چلا تھا کہ اسے مرکزی سڑک پر کوئی بیٹھا دکھائی دیا۔
اندھیرے میں کچھ نظر آنا مشکل تھا ،مگر اتفاق سے اسی وقت ایک کار وہاں سے تیزی سے گزری تو اس کی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں وہ بارش میں بھیگتا دکھائی دیا۔ جان محمد چونک گیا ۔ایک لمحے وہ گھبرا بھی گیا ۔ٹھٹھک کر رک گیا۔
’’ اس وقت یہاں کون بیٹھا ہے ۔۔وہ بھی ویران سڑک پر ۔۔؟‘‘
چند لمحے وہیں کھڑے رہ کرسچویشن سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ،اور جب اندھیرے میں کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو دل کڑا کر کے اس طرف چل دیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ اس کے قریب پہنچ گیا ۔
وہ سیاہ جینز اور کوٹ میں ملبوس ،پانی میں شرابور ہو رہا تھا۔
جان محمد قریب پہنچا تو اسی وقت آسمان پر بجلی کا کڑا کا ہوا اور اس کی روشنی میں جان محمد نے اس شخص کو دیکھا جو نیچے پڑے کسی نوجوان کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس کا چہرہ دوسری طرف تھا۔ جان محمد اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا۔
’’ جاوید ۔۔جاوید ہو ش میں آؤ۔۔‘‘
جان محمد نے ذرا گرج دار آواز میں کہا ،’’ اے ،کیا ہو رہا ہے یہاں ۔‘‘
’’ کچھ نہیں ۔۔میرا دوست ہے ۔۔جاوید ۔۔بے ہوش ہو گیا ہے ۔۔‘‘
اس نے چہرہ نہیں اٹھایا تھا ۔اپنے دوست کو اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا اور بہت گھبرا یا ہوا تھا ۔
’’ بے ہو ش ہو گیا ۔۔ کیسے بے ہو ش گیا ۔؟‘‘
’’ شاید ۔۔ہارٹ اٹیک ہو ا ہے ۔۔‘‘
جان محمد بھی ذرا گھبرا گیا ۔
’’ مر گیا ۔۔؟‘‘
’’ نن۔۔نہیں ۔۔صرف بے ہوش ہے ۔۔‘‘ اس نے جلدی سے جواب دیا ۔
جان محمد کو ذرا شک ہوا ۔
’’ مگر تم لوگ اس وقت یہاں کر کیا رہے تھے ۔۔؟‘‘
’’ کچھ نہیں ۔۔یہاں ایک کام سے آئے تھے ۔۔کام ختم ہو گیا تو یہاں کھڑے ہو کر ٹیکسی کا انتظار کر رہے ۔۔ اچانک بارش ہو گئی اور پھر سناٹا ۔۔کوئی ٹیکسی بھی نہیں آرہی ۔۔‘‘
اسی وقت ایک ٹیکسی وہاں سے گزری ۔نوجوان نے چلا کر کہا ۔
’’ ٹیکسی ۔۔‘‘
ٹیکسی ڈرائیور نے بھی شاید ہیڈ لائٹ کی روشنی میں انہیں دیکھ لیا تھا۔
اس نے ٹیکسی عین ان کے سامنے روک دی ۔
’’ ذرا اس کو سوار کرانے میں مدد کریں ۔۔اس کو فورا ہاسپٹل لے کے جانا ہے۔کہیں دیر نہ ہو جائے ۔۔‘‘
جان محمد نے اس کی مدد کی اور دونوں نے مل کر اسے ٹیکسی کی پچھلی نشست پر بٹھایا ۔
’’ میں بھی چلوں ۔۔‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ نن۔۔نہیں ۔۔کوئی ضرورت نہیں ویسے ۔۔اتنی مدد ہی کافی تھی ۔۔میں اسے لے جاؤں گا ہاسپٹل ۔۔‘‘
پھر اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں ٹیکسی ڈرائیور سے کہا ،’’ جلدی کرو ۔۔نیشنل ہاسپٹل چلو ۔۔‘‘
ٹیکسی ڈرائیور نے فورا ٹیکسی آگے بڑھا دی۔جان محمد کچھ دیر تک وہیں کھڑا ٹیکسی کو جاتے دیکھتا رہا ،پھر ایک دم جان محمد کواحساس ہوا کہ اس نے ان دونوں کا چہرہ تو دیکھا ہی نہیں۔
شدید بارش میں کسی کی شکل ٹھیک سے دکھائی ہی نہیں دی تھی۔ (جاری ہے)