• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ عمران

بہو کے ساتھ تمھاری محبت، احترام پر سبھی حیرت کرتے ہیں۔ خاتون کے سوال پر وہ تیکھی نگاہوں سے گھورتے، مسکراہٹ ضبط کرنے کی کوشش میں تھیں۔ خاندان بھر میں سختی میں معروف خاتون بہو کے ساتھ اتنی اچھی اور نرم کیسے ہو سکتی ہیں۔ اس پر حیرت فطری بات تھیں۔

گہری فکر کے زیر اثر بولیں۔ میں نے سسرال میں ساس بہو کے تعلق میں بہت کچھ جھیلا۔ ہم چھ بھاوجیں ہیں، سبھی ساس امی سے متنفر تھیں کہ انھوں نے کسی کو کوئی اسپیس نہیں دی تھی۔ ان کے منفی جملے اور معاندانہ رویہ ہمیشہ ان کا مقام گراتا رہا۔ اپنے دل کو ٹٹولتی میں اکثر سوچتی،تمام تر محنت کے باوجود انھیں کیا ملا ؟وہ کبھی دل میں نہ اتر سکیں۔ باوجود اس کے کہ وہ اپنے مقام پر درست تھیں۔ 

ان کی ذرا سی حکمت،نرم دلی سب کچھ بدل سکتی تھی۔ سختی کے عمل نےگھر بھر کا ماحول اتنا بوجھل کر رکھا تھا کہ سانس لینا بھی دشوار ہوتا، انھیں لگتا وہی ٹھیک ہیں۔ وہ کسی کے انداز فکر کو قبول کرنے پر کبھی تیار نہ ہوئیں۔ 

یہ سب لمحات بہت کچھ سکھانے والے تھے۔ وہ ٹھیک تھیں تو کئی مقامات پر ہم بھی غلط نہ تھیں۔ انھیں کچھ ماننا اور کچھ منوانے کا ہنر آنا چاہیے تھا ۔ دوستانہ ، متوازن رویہ بہت کچھ بہتر کر سکتا تھا۔ کبھی بے ساختہ گلے لگا لینا ،کبھی محبت بھری تنبہی نگاہیں ،جن کاتاثر کچھ اور ہوتا، بہرحال وہ دور ہمارے سیکھنے کا دور تھا۔

سو جب میری گود میں بیٹا آیا تو میری پہلی دعا تھی رب کریم اس کی بیگم کے معاملے میں مجھے صبر اور حکمت عطا کرنا۔ اس دعا پر میں بے ساختہ ہنس دی تھی کہ ابھی تو وہ دنیا میں آیا ہے اور میں دعا بہت آگے کی کر رہی ہوں، پھر یہ دعا میرا معمول بن گئی اور پھر بیٹے کی شادی ہو گئی بہو کی باتیں، اس کےانداز نے مجھ پر الٹا اثر کیا، بجائے غصے کے محبت زیادہ ہوجاتی، سب حرکتیں معصومیت لگتیں ،میں خود حیران تھی۔ اپنی بیٹیوں کی وہ باتیں جن پر طوفان اٹھا دیا کرتی ، بہو کی ان ہی باتوں پر مسکرا دیتی۔

فجر کے بعد اپنی بچیوں کو میں نے کبھی سونے نہ دیا، حتی کہ چھٹی کے دن بھی عشاء کے وقت سو جانا اور فجر کے بعد سونا ممنوع تھا۔ بہو دن چڑھے سونے کی عادی نکلی۔ اُس پر بھی مجھے غصہ آنا چاہیے تھا لیکن اُس پر بیٹے کے جھنجھلانے پر عجب منطق پیش کی یقینا ًحکمت تھی اور رب کی خاص عطا تھی۔ بیٹے کو سمجھایا اس کا قصور نہیں۔

اس کے گھر میں یہی روٹین ہوگی ۔ آہستہ آہستہ عادت بدل لے گی ۔نہ بھی بدلے تو بچوں کے بعد عادت بدلنا ہر ماں کی طرح اس کی بھی مجبور ی ہو گی ۔ سو صبر سے کام لو ۔اسپیس دو ۔بیٹے نے قہقہہ لگایا۔ امی جی یہ آپ کہہ رہی ہیں؟اس نے آنکھیں ملتے خواب کی اداکاری کی۔ 

ان کی کتھا سنتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ مزاج بدلنے کی معجزانہ تدبیر جو نفسیات داں بتاتے ہیں ،نہ جانے اُن ان پڑھ خاتون کو کیسے سمجھ آگئی تھی کہ انسان جب اپنا مزاج بدلنا چاہیے تو اسے اپنے اس ارادے ،عزم کو بار بار دہراتا رہنا چاہیے۔

ان خاتون نے دعا کے ذریعے اپنا مزاج بدلنے کی شعوری کوشش کی تھی، نتیجے میں وہ بدل گئی تھیں۔ دوسری طرف دعا کی معجزانہ تاثیر ایک الگ انداز سے سمجھ آئی کہ یہ رب کا انعام، بدل دینے والا ہتھیار ہے جو رب نے خاص ہمیں عطا فرمایا ہے۔ ہم ڈائریکٹ اس سے بات کرکے سب کہہ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اس کی ہر رکاوٹ دور کرکے آسانی پیدا فرما دیتا ہے۔ میں بھی بہت کچھ تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ آج معلوم ہوا کمی مستقل مزاجی اور دعا نہ کرنے کی تھی۔