کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی نے ریگولر بینچز اور آئینی بینچ کے دائرہ کار سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔۔ چیف جسٹس نے وکلا سے استفسار کیا کہ آئینی بینچ کی تشکیل کے بعد ہائی کورٹ کے دیگر بینچز کی کیا حیثیت ہے۔ چیف جسٹس محمد شفیع صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 175 کے تحت ہائی کورٹس بھی آئینی عدالتیں ہیں۔ بیرسٹر ایان میمن اور بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کے باعث روسٹر کی تشکیل کا اختیار متاثر ہوا ہے۔ آئینی ترمیم سے ہائی کورٹ کے ریگولر بینچز کے حکومت کو ہدایت جاری کرنے اور بنیادی حقوق کے متعلق اختیارات محدود ہوئے ہیں۔ کسی قانون کے آئین سے متصادم ہونے کے بارے میں ریگولر بینچز بھی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو کراچی میں بجلی کے بل میں اضافی سر چارج کے خلافدرخواستوں کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزاروں کے وکلا نے کہا کہ میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ کے الیکٹرک کے بلوں میں ٹیرف کے علاؤہ چارجز وصول کیے جارہے ہیں۔ بجلی کے ٹیرف کی تیاری میں نیپرا تمام فریقین کو اعتماد میں لیتا ہے ہے۔ ٹیرف کا تعین تمام پیداوار اور ترسیل کے تمام اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ وفاق کو ٹیرف کی موجودگی میں اضافی سر چارج عائد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کو بھی ٹیکس یا فیس عائد کرنے کے لامحدود اختیارات نہیں۔ لاہور ہائی کورٹ ایسے ٹیکس کی وصولی کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔ نیپرا ایکٹ کی دفعات 31(5)غیر آئینی قرار دیئے جانے کے بعد بالکل اسی طرح نئی دفعہ 31(8)شامل کردی گئی۔ پاکستان ہولڈنگ کمپنی پورے ملک کی سبسڈی اور قرضوں سے متعلق ادارہ ہے۔ لیکن پورے پاکستان کا قرضہ صرف کراچی کے بجلی کے بلوں سے وصول کیا جارہا ہے۔