• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی غلام مصطفیٰ رفیق

مسجد کے ساتھ تعلق اور دلی محبت بندۂ مومن کے لیے نہ صرف یہ کہ آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ مسجد سے تعلق رکھنے اور دلی محبت رکھنے والوں کو حشر کے میدان میں خصوصی سایہ نصیب فرمائے گا ایک روایت میں رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے آدمیوں کو اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ فراہم کریں گے، اور ان سات قسم کے افراد میں سے ایک وہ شخص بھی ہے کہ جس کا دل مسجد کے ساتھ لگا ہوا ہو۔

ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جس شخص کا تعلق مسجد سے ہو اور وہ شخص صبح کو یا شام کو اپنے گھر سے نکل کر مسجد کی جانب جاتاہے، تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے لیےجنت کی مہمانی کا سامان تیار کراتے ہیں۔

گویا کہ صبح شام مسجد آنے جانے والے شخص کی حیثیت اللہ کے ہاں ایک عزیز مہمان کی ہے، ہر دفعہ کی حاضری پر اس شخص کے لیے جنت میں مہمانی کا سامان تیار ہوتا رہتا ہے جو اللہ کے ہاں پہنچنے کے بعد اس شخص کے سامنے موجود ہوگا۔

جو شخص اچھے طریقے سے وضو کرکے مسجد جاتاہے، اللہ تعالیٰ ہر ہر قدم پر گناہ کو مٹاتے ہیں اورنیکی لکھتے ہیں اور جب تک آدمی مسجد میں موجو درہتا ہے حدیث پاک میں ہے : فرشتے اس آدمی کے حق میں رحمت کی دعاکرتے رہتے ہیں اور فرشتوں کے الفاظ یہ ہوتے ہیں : اے اللہ!اس بندے پر خاص عنایت فرما، اس بندے پررحمت فرما۔

روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب ،مقدس ، اور پاکیزہ مقامات مساجد ہیں، اور مساجد کی نسبت بھی براہ راست اللہ تعالیٰ کی جانب ہوتی ہے، اسی لیے کہاجاتا ہے کہ: مساجد اللہ کے گھر ہیں۔ مساجد روحانی اعمال و افعال کا مرکز ہیں، اللہ کے ذکر وعبادت سے یہ گھر معمور رہتے ہیں، صبح و شام فرشتوں کی آمد و رفت رہتی ہے، نماز ادا کرنے، ذکر واذکار میں مشغول افراد پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں، ان کے دلوں کو اطمینان اور سکون کی دولت سے نوازا جاتاہے۔ ساتھ ساتھ اس امت کے لیے دینی اور اسلامی زندگی کی تربیت اور حفاظت میں مسجد کا بڑا دخل ہے، یہاں سے امت کو دینی رہنمائی اور علم نبوت سے آگاہی دی جاتی ہے۔ یہیں سے حق کی نشرواشاعت ہوتی ہے، خالص اسلامی ذہنیت کی تعمیر یہیں سے ہوتی ہے۔

اس لیے اہل ایمان کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ان مراکز کو آباد رکھیں ، ان سے اپنا تعلق جوڑیں، اور تعلق فقط رسمی نہ ہو، بلکہ مضبوط تعلق ہو، مسجد سے تعلق دنیا اور آخرت میں راہ راست پر قائم رہنے، گمراہی سے بچنے اور کامیابی و کامرانی کا بڑا سبب ہے۔ جن لوگوں کا مساجد سے تعلق مضبوط رہتا ہے، ان کے اس تعلق کا ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بڑا دخل ہوتا ہے۔ مساجد کے ساتھ تعلق کی وجہ سے لوگوں کی معاشرتی زندگی پاکیزہ بنتی ہے۔

ہمیں احادیث میں یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے ہی رحمت کی دعا کیا کریں :"اللَّهُمَّ افْتَحْ لِى أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ "اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اس دعا کی تلقین کی گی ہے کہ تاکہ مسجد میں آتے ہوئے بھی ہم غافل بن کر نہ آئیں بلکہ سائل بن کر، محتاج بن کر، اور رحمت الٰہی کے طلب گا ربن کر آئیں۔

احادیث مبارکہ کی سند میں ایک شخص عبداللہ بن حبیب رحمہ اللہ کا اسم گرامی آتا ہے ، انہیں مسجد سے بڑی محبت تھی، اکثر وقت مسجد میں گزارا کرتے تھے، یہاں تک کہ جب ان کی زندگی کی آخری سانسیں چل رہی تھیں تو اس وقت بھی یہ مسجد میں موجو دتھے، تو ایک صاحب عطاء بن سائبؓ نے عبداللہ بن حبیب ؒسے کہا: آپ اس وقت اپنے گھر اپنی آرام گاہ چلے جائیں تو اچھا ہے، عبداللہ بن حبیب ؒ نے جواب میں انہیں یہ روایت سنائی: مجھے رسول اللہ ﷺ سے سننے والے نے یہ بتایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنی نماز کی جگہ یا مسجد میں داخل ہو، تو ملائکہ مسلسل اس کے لیے دعاگو رہتے ہیں، جب تک کہ وہ بے وضو نہ ہوجائے، ملائکہ یوں دعاگو ہوتے ہیں: اے اللہ !اس کی مغفرت فرما!اے اللہ !اس پر اپنا رحم فرما۔ لہٰذا میں یہ چاہتا ہوں کہ میری موت اس حال میں آئے کہ میں مسجد میں موجود ہوں، تاکہ میں اس دعا کا مستحق بن جاؤں۔

حضرت انس ؓایک روایت میں بیان فرماتے ہیں ، رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یہ ندا فرمائے گا، کہاں ہیں میرے پڑوسی ! سبحان اللہ، کتنے باسعادت ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ کے پڑوسی ہونے کی سعادت حاصل ہوگی، تو فرشتے فرمائیں گے: باری تعالیٰ !آپ کے پڑوسی کون ہوسکتے ہیں ؟تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کہاں ہیں مساجد کو آباد کرنے والے۔مساجد کو آباد کرنے والے میرے پڑوسی ہیں۔

رسول اللہ ﷺنے مسجد کی آبادی کے حکم کے ساتھ خود اپنے عمل سے بھی ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم ہر موقع پر مسجد سے اپنے تعلق کو قائم دائم رکھیں۔ آپ ﷺ کے بارے میں حضرت کعب بن مالکؓ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ آپﷺ کسی سفر پر تشریف لے جاتے اور عموماً اسفار جہاد کے اسفار ہواکرتے تھے، جب آپ ﷺواپس تشریف لاتے تو عموماً چاشت کے وقت آیا کرتے تھے اور سب سے پہلا کام یہ ہوتا تھا، مسجد تشریف لے جاتے وہاں دو رکعتیں پڑھتے اور پھر لوگوں سے ملاقات اور حال احوال کے لیے تشریف فرما ہوتے۔

اسی طرح بخاری شریف میں ہے، حضرت جابر بن عبداللہ ؓبیان فرماتے ہیں: میں پیغمبر اسلام ﷺکے ساتھ ایک سفر میں تھا، جب ہم مدینہ پہنچے تو آپﷺ نے حکم دیا کہ پہلے مسجد میں جاؤ اور وہاں دو رکعت نفل پڑھو۔ یہ نبی کریمﷺ کا اسوۂ حسنہ ہے، مسجد کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے بارے میں، آپ ﷺسفر سے بھی تشریف لاتے تو سیدھا مسجد کی جانب متوجہ ہوتے ، سب سے پہلے بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوکر عبادت کا نذرانہ پیش فرماتے ، پھر لوگوں سے اور اپنے گھر والوں سے ملاقات فرماتے تھے۔

حضرت ابودرداءؓ صحابی رسول ہیں، انہوں نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کی تھی : اے بیٹے ! تمہارا گھر مسجد ہونا چاہیے، کیوں کہ میں نےرسول اللہ ﷺ سے سنا ہے: متقی لوگوں کا گھر مسجد ہوتاہے، اور جس شخص نے مسجد کو اپنا گھر بنالیا یعنی کثرت سے آمد و رفت مسجد کے ساتھ رہی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے راحت وسکون کے ضامن ہیں اور اسے پل صراط سے آسانی سے گزارد یں گے۔ مسجد سے تعلق دنیا کے اعتبار سے بھی فائدے کا باعث، راحت وسکون حاصل ہوگا، اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ پل صرط سے گزرنے کو آسان فرمائے گا۔

جو شخص جتنا اپنا تعلق مسجد سے مضبوط بنائے گا، اس کی اجتماعی اور انفرادی زندگی بہتر ہوتی رہے گی، راہ حق پر وہ قائم رہے گا، گمراہیوں سے محفوظ ہوگا، اللہ کی رحمت اور فرشتوں کی دعا کا مستحق ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ تعلق ان شاء اللہ اس کے لیے آخرت میں مغفرت اور عرش الٰہی کے سائے میں جگہ مل جانے کا سبب بنے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں مساجد کو آباد کرنے والا بنائے ، اور مساجد کی آبادی کے ذریعے ہمارے لیے دنیا و آخرت میں کامیابیوں اور کامرانیوں کا فیصلہ فرمائے ۔(آمین)

اقراء سے مزید