• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میرے شوہر کا 15دسمبرکو انتقال ہوگیا ہے، ایک بیٹی ہے جس کی شادی ہونے والی ہے ، ہم دونوں ماں بیٹی اُس گھر میں تنہا رہتی ہیں ، کوئی ذریعۂ معاش بھی نہیں ہے ،کیا یہ ممکن ہے کہ میں چالیسویں کے بعد اپنی والدہ کے گھر عدّت پوری کروں ؟، شرعاً عدت کہاں پوری کرناچاہئے ؟(ایک دینی بہن ، کراچی )

جواب: عدّت گزارنے والی خاتون کا عدت کے دوران گھر سے نکلنا حرام ہے ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: ’’تم انہیں(عدّت میں)انہیں اپنے گھروں سے نہ نکالو اور وہ خود (بھی)نہ نکلیں، مگر یہ کہ وہ کوئی کھلی بے حیائی کا کام کریں‘‘، (سورۃ الطلاق:1)۔ عورت کے لئے عدّت اُسی مکان میں واجب ہے جو شوہر کی وفات کے وقت اُس کی جائے سکونت تھا۔

علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ عورت کو طلاق دی گئی یا اس کا شوہر وفات پاگیا اور وہ اپنے گھر کے علاوہ کہیں اور گئی ہوئی تھی، تو اسے چاہئے کہ فوراً اپنے گھر لوٹ آئے، کیونکہ اس پر گھر لوٹنا واجب ہے، کوئی عورت عدتِ طلاق گزار رہی ہو یا عدتِ وفات، دونوں صورتوں میں اسے چاہئے کہ اسی گھر میں عدت گزارے، جہاں پر عدّت گزارنا، اُس پر واجب ہے، سوائے اس کے کہ انہیں ( اس گھر سے زبردستی) نکال دیا جائے یا مکان گر جائے یا اس کے گرنے کا خدشہ ہو یا اس کا مال تلف ہونے کاخطرہ ہویا (مکان کرائے کا ہونے کی صورت میں) کرایہ ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو ،ایسی تمام صورتوں (یا مجبوریوں)کی بناء پر اس کے لئے جائز ہے کہ وہاں سے نکل کر اس سے قریب ترین جگہ پر(جواسے میسر ہو) عدت گزاریں‘‘،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار جلد5ص:180، بیروت)۔

اگر کوئی شرعی عذر یا مجبوری نہیں ہے تو آپ پر شرعاً لازم ہے کہ اپنی پوری عدتِ وفات اُسی مکان میں گزاریں، جہاں آپ اپنے شوہر کی وفات کے وقت اُن کے ساتھ رہ رہی تھیں، عدت گزارنے کے بعد آپ اپنی والدہ صاحبہ کے ہاں چلی جائیں۔

آپ کا کوئی محرم رشتہ دار (مثلاً بھائی، بھتیجایا بھانجا وغیرہ ) آپ کے ساتھ مکان میں رہ سکتے ہیں یا وہ آپ کی سودا سلف کی ضروریات آکر پوری کرسکتے ہیں۔ سوائے اس کے خدانخواستہ وہاں پر آپ کی جان ومال اور آبرو کو خطرہ درپیش ہے ،تو پھر آپ مجبوری کے تحت اپنی والدہ کے ہاں منتقل ہوسکتی ہیں۔

اقراء سے مزید