آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: ز مّرد اور دیگر قیمتی پتھر نکالنے کے لیے حکومت سے دس برس کے لیے ایگر یمنٹ کیا جاتا ہے، لیکن اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ سرکاری پہاڑ دس سال کے لیے حکومت جسے بھی دیتی ہے، اس سے ایک ارب روپے لیتی ہے، اور وہ پہاڑ حکومت کے قبضے میں ہوتا ہے، بعض پیسے لیز ہولڈر سے نقد لیتی ہے، اور بعض قسط وار لیتی ہے، پھر اس پہاڑ سے جو زمرد نکلتے ہیں، نکالنے والے حکومت کو بھی ان سے کچھ بطور ٹیکس دیتے ہیں، یعنی پانچ پرسنٹ یا چھ پر سنٹ یہ شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟
فقہی اصطلاح میں اگر اسے ’’اجارۃ الاعیان‘‘ کی وجہ سے ناجائز قرار دیا جائے تو ۱۹۵۷ سے اس پر ابتلاء عام اور معمول چلا آرہا ہے اور ہر سال اس سے اربوں کی کمائی ہوتی ہے ، تو کیا ابتلاء عام اور معمول کی وجہ سے اس کے لئے جواز کی گنجائش ہو سکتی ہے کہ نہیں؟
وضاحت: ہم سرکار سے اس بات پر معاہدہ کرتے ہیں کہ پہاڑ دس سال کے لیے لے لیتے ہیں اور اس کی منفعت یعنی زمرد پتھر وغیرہ نکالتے ہیں، یعنی ہم اجارہ قیمتی پتھر اور زمرد پر کرتے ہیں پہاڑ پر نہیں کرتے۔
جواب: واضح رہے کہ کسی ناجائز کام کے عام ہوجانے اور عوام الناس کے مبتلا ہوجانے کی وجہ سے اس کام کو شرعاً جائز قرار نہیں دیا جا سکتا، کسی کام کے جائز ہونے کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا سوال میں ذکر کردہ طریقے کو ابتلائے عام کی وجہ سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
صورتِ مسئولہ میں دس سال کے لیے پہاڑ لیز پر لینا اور اس عرصے میں قیمتی پتھر نکالنا ’’اجارۃالاعیان ‘‘ کے قبیل سے ہونے کی وجہ سےناجائز ہے، البتہ اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ سرکار پتھر نکلوانے کی اجرت مقرر کرکے معاہدہ کرے، اور کام مکمل ہونے پر معاہدے کے مطابق مزدور کو مزدوری ادا کرکے فارغ کردے، جو قیمتی پتھر نکالے گئے ہوں، انہیں جسے چاہے قیمت مقرر کرکے فروخت کردے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الاجارۃ ، فصل فی رکن الاجارۃ و معناھا جلد 4 ص: 174 ،175 ط: دارالکتب العلمیۃ)