• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرم، سرکاری مذاکراتی ٹیم پر حملہ، ڈی سی سمیت 5 زخمی، امن معاہدے کو شدید دھچکا، پرتشدد واقعات روکیں گے، سیکورٹی ذرائع

پشاور( ارشدعزیز ملک )کرم میں سرکاری مذاکراتی ٹیم پر حملہ، ڈی سی سمیت 5 زخمی، امن معاہدے کو شدید دھچکا۔

اس حملے میں ڈپٹی کمشنر سمیت 3 پولیس اہلکار اور 2 فرنٹیئر کور کے اہلکار شدید زخمی ہو گئے۔

ڈپٹی کمشنر کو 3 گولیاں لگیں تاہم ان کی حالت اب خطرے سے باہر ہے، ڈپٹی کمشنر اور ایک زخمی اہلکار کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کر دیا گیا۔

وزیراعلیٰ علی امین نے اس واقعے پر سینئر حکام سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ 

اعلیٰ سیکیورٹی اور سرکاری حکام نے اس واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ نہ صرف امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے علاقے میں پہلے سے موجود انسانی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔ 

حکومت اور سیکیورٹی ذرائع نے واضح کر دیا ہے کہ آئندہ کسی بھی قسم کے پرتشدد واقعات کو پوری قوت سے روکا جائے گا۔ 

حکومت اور سیکیورٹی ذرائع نے مزید کہا کہ کرم کے عوام کو اب اپنے تحفظ اور اپنے علاقے کے مستقبل کے لیے متحد ہونا ہوگا۔ 

4 جنوری 2025ء کو کرم کے زیریں علاقے میں ایک پرامن اور امید افزا واقعہ اس وقت افسوسناک سانحے میں تبدیل ہو گیا جب خوراک اور ادویات سمیت ضروری سامان لے جانے والا قافلہ امن معاہدے کے تحت روانہ ہونے والا تھا۔

اس قافلے کو مقامی امن کمیٹیوں کی طرف سے محفوظ راستے کی ضمانت دی گئی تھی۔

صبح 10 بج کر 35 منٹ پر جب مذاکراتی ٹیم قافلے کی روانگی کے لیے سڑک کلیئر کر رہی تھی تو 40 سے 50 مسلح شدت پسندوں نے ڈپٹی کمشنر جاوید محسود اور قافلے کی گاڑیوں پر فائرنگ کر دی۔ 

ایک سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ امن کمیٹیوں کی طرف سے یقین دہانی کے باوجود اس واقعے نے سنگین سوالات اٹھائے ہیں کہ اس طرح کی قابل مذمت حرکت کیسے ممکن ہوئی، مقامی عوام کو امن کمیٹی کے رہنماؤں کو جوابدہ بنانا ہوگا اور ان سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ وہ اپنی دی گئی ضمانتوں پر عمل کرنے میں کیسے ناکام رہے؟ علاقے کے عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقامی رہنماؤں سے وضاحت اور جوابات طلب کریں۔ 

سرکاری ذرائع نے کہا کہ ایم پی اے ملک ریاض شاہین، ملک غنی، ڈاکٹر قادر، حاجی کریم، ملک سیف اللہ، اور حاجی شریف جیسے نمایاں مقامی شخصیات نے علاقے میں امن یقینی بنانے کا عہد کیا تھا لیکن یہ افسوسناک واقعہ اس بات کی سخت یاد دہانی ہے کہ انتہا پسند عناصر اس علاقے میں امن کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ 

اگر مقامی لوگ ان عناصر کے خلاف متحد نہیں ہوئے تو اس کے نتائج انہیں ہی بھگتنا ہوں گے۔ 

اب پہلے سے زیادہ ضروری ہے کہ کمیونٹی اپنے درمیان موجود امن دشمنوں کو پہچانے اور ان کا سامنا کرے۔ 

دریں اثنا، وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کرم کے ڈپٹی کمشنر اور دیگر زخمی افراد کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ کرم میں امن معاہدے کے بعد پیش آنے والا یہ واقعہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ 

وزیرِاعلیٰ نے اس حملے کو حکومت کی امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی شرمناک کوشش قرار دیا۔

انہوں نے یقین دلایا کہ فائرنگ میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ 

علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ یہ واقعہ ان عناصر کی جانب سے منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے جو کرم میں امن کی بحالی نہیں چاہتے۔

اُنہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کرم میں امن بحال کرنے اور عوام کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے پرعزم ہے۔

وزیراعلیٰ نے زور دیا کہ فریقین کے درمیان معاہدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کرم کے لوگ پرامن ہیں اور علاقے میں استحکام چاہتے ہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ انتہا پسند عناصر کرم میں امن نہیں چاہتے لیکن ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔

اہم خبریں سے مزید