پروفیسر خالد اقبال جیلانی
اللہ ربّ العزت کے نزدیک مقبول ترین اور پسندیدہ دین ،دین ِاسلام ہی ہے۔ یہی وہ دین، یعنی نظام حیات ہے جس پر عمل پیرا ہو کر امت مسلمہ کے ہر ہر فرد کی انفرادی اور اجتماعی کامیابی ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کو زندگی گزارنے کے طریقے کے طور پر انسانی زندگی کے ہر شعبے اور ہر گوشے کے لئے مکمل کر دیا ہے۔
یہ صرف چند عقائد و فرائض کا نام نہیں، بلکہ انسانی زندگی کے ہر شعبے اور ہر فرد بشر کے لئے قابلِ قبول اور کار فرما ضابطۂ حیات ہے۔ انسان کی سماجی، معاشرتی، عائلی، انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کو اسلام نے واضح انداز میں پیش کر دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی اجتماعی زندگی سے انفرادی زندگی اور اپنی ذاتی زندگی سے گھریلو زندگی تک کو صحابہ کرام ؓ اور دنیا کے سامنے پیش کیا، تاکہ لوگ اس سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔ اس پر اپنی زندگی میں عمل کر سکیں۔ قرآن کریم میں اسی بات کو اس طرح بیان کیا گیا’’ تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔(سورۃ الاحزاب21:)
قرآن کریم نے ایمان والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ‘‘(سورۃالبقرہ 208:) یہ خطاب، عام انسانوں سے نہیں، بلکہ ایمان والوں سے ہے جو پہلے ہی ایمان لاکر اسلام قبول کر چکے ہیں اور اسلام پر عمل پیرا ہیں۔ سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے یہ بات کیوں کہی ہے؟اور کیا اس کے مخاطب اولین مسلمان یعنی صحابہ کرامؓ ہی تھے یا یہ خطاب ہر دور کے مسلمانوں سے ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کا یہ خطاب ہر دور کے اہل ایمان سے ہے۔ آیئے اس بات کو ہم اپنے دور کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ دور حاضر میں ہم نے اسلام کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ مثلاً ذاتی زندگی، اجتماعی زندگی اور اسلامی زندگی جیسے حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے اسلام کو محض مساجد تک محدود کر دیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خود مسلم امہ کا پوری دنیا میں سماجی ، معاشی اور معاشرتی زوال شروع ہوگیا۔ آج ایمان والے بظاہردنیا میں بے وزن اور بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں۔
دوسری طرف صورت حال اور عام مشاہدہ یہ ہے کہ ایک مسلمان معاشرے میں رہتے ہوئے صبح وشام ہمارا واسطہ اپنے جیسے مسلمانوں کے ساتھ پیش آتا ہے۔مختلف لوگوں کے اخلاقی رویے اور سماجی سوچ دیکھ کر ہمیں اپنی اجتماعی بصیرت اور نا سمجھی پر افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے دین اسلام کو صحیح طور پر اور اس کی حقیقی روح کے ساتھ نا تو سمجھا اور نہ ہی اس پر عمل کیا۔ مثلاً کچھ لوگ نماز روزے کی حد تک تو بہت با عمل ہوتے ہیں، لیکن ان کا اخلاقیات اور معاشرتی حقوق و آداب کا خانہ خالی ہوتا ہے۔
اسی طرح کچھ لوگ حقوق و فرائض کا تو خوب خیال رکھتے ہیں ،لیکن شرم و حیا، لباس ، وضع قطع اور شعائر اسلام کے بارے میں ان میں حمیت وغیرت بالکل نظرنہیں آتی۔ انہی میں ایسے بھی صالحین و متقین ہوتے ہیں جو عبادات و فرائض کے ساتھ ساتھ صبح شام، دن رات، اٹھنے، بیٹھنے، سونے جاگنے، کھانے پینے پہننے، اوڑھنے کی سنتوں پر تو بڑی سختی کے ساتھ کاربند رہتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ وہ اپنے معاشی معاملات و کاروبار میں سودی لین دین، جعل سازی، دھوکا دہی، ملاوٹ اور سچ و جھوٹ کا رتی برابر بھی خیال نہیں کرتے۔
جیسا کہ ہم نے شروع میں بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو حکم دیتا ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو، کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے، غور فرمائیں کہ اسلام کا مطلب ہی کامل سپردگی ہے۔
یعنی اپنی مرضی ، خوشی ، خواہش نفس سے بہ رضا و رغبت ِ قلبی اللہ کے لئے دستبردار ہو جانا۔ اب اس پر مزیدزور دےکر فرمایا جا رہا ہے کہ اسے پورا کا پورا تسلیم کرنا اور اس میں مکمل طور سے داخل ہونا ہوگا۔ اسے کاٹ پیٹ کر کم یا زیادہ نہیں کیا جا سکتا۔
ماننا ہے تو پورا ماننا ہوگا۔ دین اسلام کو اختیار کرنے میں کوئی جبر و اکراہ زور زبردستی نہیں ہے، لیکن اگر ایک بار دین سوچ سمجھ کر قبول کر لیا تو ایک مومن کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ ہے کہ وہ قرآن کریم اور سنت ِ رسول ﷺ کے مقابلے میں اپنی خواہشات ، دنیا کا دستور ، زمانے کا چلن اور خاندان کا رواج پیش کر سکے۔
لہٰذا اب اللہ اور اس کے رسول ﷺکے واضح احکامات کے سامنے بے عملی کا کوئی جواز یا بہانہ یا عذر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ چاہے مشرقی روایات ہوں یا مغربی طرز فکر ، جو بھی چیز اسلام کے اصولوں سے متصادم ہو یا عمل میں رکاوٹ ہو، اسے ترک ہی کرنا ہے، چاہے دل چاہے یا نہ چاہے۔
دوسری بات جو اس آیت مبارکہ میں واضح انداز میں بتادی گئی ہے وہ یہ کہ دین پر مکمل طور سے عمل نہ کرنا درحقیقت ’’شیطان کی پیروی کرنا ہے‘‘۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو واضح ہدایات بھیجی ہیں، ان میں کوئی ادھوراپن، پیچ دار باتیں یا غیر واضح اور مبہم زبان استعمال نہیں کی گئی۔ اس کے سیدھے سادے اور واضح مفہوم کی پیروی کرنا ہر مومن کے اختیار اور بس کی بات ہے۔
اس کے بعد جو بھی عمل نہیں کرے گا ،وہ دراصل شیطان کی پیروی کرے گا اور اللہ تو غالب و حکیم، دانا وبینا ہے، اس کے سامنے کوئی عذر، بہانہ، حجت پیش نہیں کر سکے گا۔ اس میں نہ تو ہماری ذاتی پسندو نا پسند کو کوئی دخل ہے، نہ زمانے کے چلن کا بہانہ قابل قبول ہوگا۔
اپنے اردگردجب ہم مسلمان گھرانوں کی خوراک لباس، طرزِ رہائش ، تقریبات اور تفریح منانے کے انداز میں دورخاپن اور مغربی تہذیب کا انداز دیکھتے ہیں تو روشن خیالی، وسعتِ نظری یا لبرل اسلام کے نام پر خود بھی جدت اور جدیدیت اپنا کر غیر اسلامی رسوم و روراج منانے لگتے ہیں۔
ان کے مقابلے میں ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جو اس لبرل ازم یا وسعتِ نظری سے دامن بچاتے ہیں، اپنے اوپر تنگ نظری کے لیبل لگوانے کے باوجود اپنے اصولوں پر کار بند رہتے ہیں اور اپنی خواہشات ، زمانے کے چلن اور دستور کے آگے ہتھیار ڈال کر حیل و حجت نہیں کرتے اور پورے کے پورے اسلام میں داخل رہتے ہیں۔
اصلاح احوال کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جب ہمیں ایک بار اپنی کوتاہی اور غلطی کا احساس ہو جائے تو ہماری زندگی کے جو عملی پہلو کمزور ہیں، ان کی بہتری کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں علماء و مشائخ اور مطلوبہ اوصاف کے حامل لوگوں سے مشورہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ہمہ وقت اللہ سے اس کے دین پر مکمل طریقے سے عمل پیرا ہونے کی دعا اور استعانت بھی مانگتے رہنا چاہئے۔
اپنی اصلاح اور خود احتسابی کے عمل کو زندگی پر محیط کر لینا چاہئے۔ کیونکہ ہم کسی بھی مرحلے پر یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہم نے پورے کے پورے دین پر عمل کر لیا ہے۔
البتہ پورے دین پر عمل کرنے کا پختہ ارادہ اور اس کے لئے مسلسل و پیہم کوشش کرنا ضروری ہے۔ بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور کمی کوتاہی کا اندیشہ بھی ہر وقت لاحق رہتا ہے۔ چونکہ اگلے ایک سانس کا بھی بھروسا نہیں ہے، اس لئے غلطی وکوتاہی کا احساس ہوتے ہی اصلاح کی کوشش شروع کر دینی چاہئے۔