اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ سیل) ملٹری کورٹس میں سویلینز ٹرائل سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے ججز کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کا طیارہ ہائی جیک ہوا مارشل لاء لگا، مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں چلا۔ دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آرمی افسرکواتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہےکہ سزائے موت تک سنادی جاتی ہے؟ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے طریقہ کارپرمطمئن کریں جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اس نکتے پربھی وضاحت کریں کہ فوجی عدالت میں فیصلہ کون لکھتا ہے؟ میری معلومات کےمطابق کیس کوئی اور سنتا ہے اور سزا و جزا کا فیصلہ کمانڈنگ افسر کرتاہے، جس نے مقدمہ سنا ہی نہیں وہ سزاو جزا کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟ اس پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ فیصلہ لکھنے کیلئے جیک برانچ کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس شعبے میں مجھے 34 سال ہوگئے پھر بھی خود کو مکمل نہیں سمجھتا، کیا اس افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا فیلڈ مارشل میں ڈیفنس وکیل ہوتا ہے وہاں جج نہیں ہوتے۔وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں پرآرمی ایکٹ لاگو ہوتا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نےکہا ایک آرمی چیف کے طیارے کوائیرپورٹ کی لائٹس بجھاکرکہاگیا ملک چھوڑدو، اس واقعے میں تمام مسافروں کو خطرے میں ڈالا گیا، اس ایک واقعے کے باعث ملک میں مارشل لا لگ گیا مگر پھر بھی کیس فوجی عدالت میں نہیں چلا، اس پر وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ ہائی جیکنگ آرمی ایکٹ میں درج جرم نہیں، اسی لئے وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا تھا۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کی،سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔