اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف اپیل کی سماعت کے دوران جج صاحبان نے سوالات اٹھا دیئے۔
آئینی بینچ کی جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ اگر کوئی آرمی آفیسر آئین کو معطل کرتا ہے تو کیا سزا ہے؟
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ عدلیہ مارشل لاء کی توثیق کرتی رہی، کیا غیرآئینی اقدام پر ججز بھی آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی جس سلسلے میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے۔
سماعت کے آغاز میں وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی سیکشن59(4) کو بھی کالعدم قرار دیا ہے، اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں کئی جرائم کا ذکر بھی موجود ہے، ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہوگا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سویلینزکا ٹرائل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31 ڈی کے تحت آتا ہے، فوجی عدالتوں کو آئین نے بھی تسلیم کیا ہے۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 31 ڈی تو فوجیوں کو فرائض کی انجام دہی سے روکنے پر اکسانے سے متعلق ہے، فوجی عدالتوں میں کیس کس کا جائے گا یہ دیکھنا ہے۔