• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سزا کے بعد عمران خان کا فوج کے خلاف نیا روپ

یہ روایت ہے کہ بانی پی-ٹی-آئی عمران خان کی سیاست صرف ان کی ذات اور’’مشن‘‘ کے گرد گھومتی ہے جس کی تکمیل کے لئے انہوں نے کارزار سیاست میں قدم رکھا اس کے علاوہ اگر دنیا میں ان کے لئے کوئی مقدم ہے تو صرف اقتدار حاصل کرنے کے پیچھے بھی ’’مشن‘‘ کی تکمیل کے اسباب پیدا کرناہے جس کے مقابل نہ تو ملک ہے، نہ رشتہ، نہ دوستی اور نہ ہی کوئی مذہب، مذہب بھی ایسا جس کی تبلیغ انتہائی دشوار ہے۔عمران خان’’امر بالمعروف )نیکی کا حکم دینا( کا تو دعویٰ کرتے دکھائی دیتے لیکن بوجوہ‘‘نہی عن المنکر(برائی سے روکنا( پر یقین نہیں رکھتے۔اسی طرح انہیں مکمل کلمۂ طیبہ کہتے نہیں سنا گیا، ایسے کئی متنازع اشارے ان کی شخصیت کو مشکوک و متنازع بناتے ہیں جو ایک لیڈر کے لئے مناسب نہیں۔ایک بنیادی خامی جو عمران خان کی شخصیت میں زہر کھولتی ہے، وہ خامی یہ ہے کہ جو عدالت آئین اور قانون کے مطابق عمران خان کے خلاف فیصلہ کرے، غدار، جانبدار اور حکومت کا پٹھو قرار پاتا ہے اور تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بریگیڈ اس کا جینا دوبھر کردیتا ہے۔ عمران خان ایک بنیادی غلطی نمایاں ہے کہ خود ریاست اور ریاستی اداروں سے بالاتر سمجھتے ہیں اور سنہیں بے توقیر کرنا غداری نہیں بہادری سمجھتے ہیں اوراگر کوئی صحافی ان کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کرے اور سچ بات کرے تو اس کا مقابلہ انتہائی بزدلی کے ساتھ کرتے ہیں اور سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے اس کے ساتھ اس کے پورے خاندان کی عزت و عصمت کو تارتار کرنے پر فخر کرتے ہیں۔کل تک آرمی چیف سے ملاقات پر خوشی کا اظہار کرنے اور فوج سے براہ راست مذاکرات نجات کا ذریعہ ماننے والے عمران خان نے 190ملین پاؤنڈ کیس میں سزا پانے کے بعد ایک بار پھر قوم کو حمودالرحمن کمیشن رپورٹ پڑھنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور فوج کو جنرل یحییٰ کے دور کا تسلسل قرار دیتے ہیں کہ میں حقیقی آزادی کی جدوجہد پر کوئی سمجھوتا نہیں کروں گا چاہے یہ مجھ پر کتنا ہی دباؤ بڑھائیں۔حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں واضح درج ہے کہ یحیٰی خان نے اپنی کرسی بچانے کے لیے ملک دو لخت کیا ۔ آج بھی یحیٰی خان ٹو یہی کھیل کھیل رہا ہے- ملٹری حراست میں قید افراد پر بدترین تشدد ہوا اور اب بھی ان سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں۔عمران خان شائد اپنا دور اقتدار بھول گئے جب جیلیں سیاستدانوں اور سیاسی مخالفین سے بھری تھیں اور ان کے بارے میں اعلانیہ کہا تھا کہ جیل میں تفریح کرنے نہیں، بامشقت سزائیں کاٹنے آئے ہیں اور اب جب وقت نے پلٹا کھایا ہے تو کیا عمران خان جیل میں سزا کاٹنے آئے ہیں یا فائیو سٹار ہوٹل میں پر تعیش کھانے کھانے؟بانی نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کی جدوجہد کا مقصد جمہوریت کی سربلندی، آئین و قانون کی حکمرانی، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا اور بنیادی شہری حقوق کا تحفظ ہے۔حالانکہ عمران خان اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ بیان کی گئی تمام باتیں ان سیاسی ایجنڈے میں شامل نہیں بلکہ عوام اور پی-ٹی-آئی کے معصوم کارکنوں کا بے وقوف بنانے کے لئے ایک بیانیہ ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈاپور کی آرمی چیف کے ساتھ غیر رسمی ملاقات کے بعد ای آر او ملنے کے حوالے پر امید تھے لیکن 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا پانے کے مایوس ہوکر پھر انہی حرکتوں پر اتر آئے جن کی راستے وہ زوال کی اندھی گہرائی میں گرے ہیں جہاں سے ان باہر نکلنا دشوار دکھائی دیتا ہے۔9مئی اور 26نومبر کو غلط، خود ساختہ اور فوج کو اس کا ذمہ دار ثابت کرنے اور دنیا میں فوج کو بدنام کرنے کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا شوشہ چھڑنے والے عمران خان شاید علی امین گنڈاپور کے حالیہ بیان کو نظرانداز کر گئے جس میں انہوں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 9ئی کے واقعہ میں ہمارے بندے شامل تھے اور پی-ٹی-آئی کے کارکن ملوث تھے لیکن انہوں نے کہا کہ غلطی ہر کسی سے ہو سکتی ہے اور ہر غلطی کی اس شدت کے مطابق سزا کا قانون موجود ہے جس کے تحت جس نے جتنی غلطی کی ہے اس کو اتنی ہی سزا دیں۔اس انٹرویو میں گنڈاپور نے کہا کوئی بھی شخص غلطی سے، جذبات میں، وقتی طیش میں یا کسی کے کہنے یا ورغلانے سے غلط کام کر جاتا ہے تو اس کی غلطی کی سزا دی جاسکتی۔علی امین گنڈاپور کے اس اقرار کے بعد عمران خان کہاں کھڑے ہوں گے اور جو ڈیشل کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟

تازہ ترین