• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: ستائیس رجب کے متعلق اسلامی ہدایات کیا ہیں؟

جواب: رجب کا مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ہے، ان مہینوں میں عبادت کا ثواب زیادہ ہے، البتہ رجب کے مہینے میں تخصیص کے ساتھ کسی دن روزہ رکھنا یا کوئی مخصوص قسم کی تسبیحات صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہیں، لہٰذا 27 رجب کو تخصیص کے ساتھ روزہ رکھنے اور اس رات شب بیدار رہ کر مخصوص عبادت کرنے (مثلاً: صلاۃ الرغائب یا دیگر مخصوص تسبیحات وغیرہ ) کا التزام درست نہیں ہے، اور اس کی جو فضیلت عوام میں مشہور ہے کہ اس روزے کا ثواب ہزار روزے کے برابر ہے، صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے۔ 

اس لیے اس دن کے روزے کو زیادہ ثواب کاباعث یا اس دن کے روزے کے متعلق سنت ہونے کا اعتقاد رکھنا صحیح نہیں ، علمائے کرام نے اپنی تصانیف میں اس کی تردید کی ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ”تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب“ کے نام سے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی ہے،جس میں انہوں نے رجب سے متعلق پائی جانے والی تمام ضعیف اور موضوع روایات پر محدثانہ کلام کرتے ہوئے سب کو باطل قرار دیا ہے۔

رجب کے مہینے میں ” تبارک“ اور27 رجب کو روزہ رکھنے سے متعلق فتاویٰ رشیدیہ میں ہے: ”اس امر کا التزام نا درست اور بدعت ہے“۔(فتاویٰ رشید یہ مع تا لیفات رشید یہ،ص: 148) مولانا مفتی عزیز الرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ستائیسویں رجب کے روزے کو جوعوام ہزارہ روزہ کہتے ہیں اور ہزار روزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں، اس کی کچھ اصل نہیں ہے‘‘۔(فتاویٰ دار العلوم مد لل و مکمل: 6/491۔ 492) مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ماہِ رجب میں تاریخِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات واردہوئی ہیں، لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچیں۔ 

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”ماثبت بالسنتہ“ میں ذکر کیا ہے۔ بعض بہت ضیعف ہیں اور بعض موضوع (من گھڑت) ہیں“۔(فتاویٰ محمودیہ، 3/281، ادارہ الفاروق کراچی) مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ”اس شب کے لیے خصوصی نوافل کا اہتمام کہیں ثابت نہیں، نہ کبھی حضور ﷺ نے کیا، نہ صحابہ کرام ؓ نے، نہ تابعین عظامؒ نے کیا۔ 

علامہ حلبی تلمیذ شیخ ابن ہمام ؒ نے غنیتہ المستملی، ص:411 میں، علامہ ابن نجیم ؒ نے البحر الر ائق شرح کنز الد قائق ،ج:2، ص: 56، میں، علا مہ طحطا وی نے مراقی الفلاح ،ص:22 میں، اس رواج پر نکیر فرمائی ہے اور اس کے متعلق جو فضائل نقل کرتے ہیں، انہیں ردکیا ہے‘‘۔(فتاویٰ محمودیہ:3/284،ادارہ الفاروق کراچی) لہٰذا اس مہینے میں تخصیص کے ساتھ کسی عبادت کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے، ہاں تخصیص اور التزام کے بغیر جس قدر ہوسکے اس پورے مہینے میں عبادت کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔