کراچی (رفیق مانگٹ ) برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کاکہنا ہے کہ چین تجارتی جنگ ، کمپنیوں کی ریکارڈ تعداد چین سے نکلنے کےلئے پر تولنے لگیں ، کمپنیوں کی بنیادی منزل ایشیا میں ترقی پذیر ممالک ، امریکا، یورپی یونین، جاپان اور جنوبی کوریا جیسی ترقی یافتہ معیشتیں بھی ان کیلئے پرکشش ہو گئی، ایلون مسک، ٹم کک، جیف بیزوس اور مارک زکربرگ کی کمپنیاں چین میں وسیع پیمانے پر کام کر رہی ہیں، تجارتی تعلقات میں ابتری نے ان کمپنیوں کے ساتھ چینی بندھن کو کمزور کر دیا ہے، فارن پالیسی کے مطابق ٹرمپ نے نئے ٹیرف کے ساتھ تجارتی جنگ کو بھڑکا دیا، چینی معیشت کو شدید دھچکا لگنے کا امکان ہے ، چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ تجارتی یا ٹیرف جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، چین اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرے گا، بلوم برگ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے چینی محصولات کے منصوبے سے گریز کیا، کینیڈا اور میکسیکو پر پر توجہ مرکوز ہے ، ان ممالک پر 25 فیصد ٹیرف کا اشارہ دے دیا ہے ، فارن پالیسی ،بلوم برگ،فناشل ٹائمز اور گلوبل ٹائمز جیسے عالمی میڈیا کے بڑے اداروں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ پر تجزیے کئے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کے عہد ہ سنبھالتے ہی چین کے ساتھ ٹیرف پر معاملات شدید تناؤ میں ہیں، ٹرمپ نے صدارتی مہم کے دوران ساٹھ فی صد ٹیرف کی دھمکیوں کی بجائے دس فی صد ٹیرف کی بات کی ہے تاہم اس سے بھی چینی معیشت دھچکے کا شکار ہے۔ عالمی میڈیا دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ پر اپنے تجزیے پیش کررہا ہے۔ چینی اخبار’ گلوبل ٹائمز‘ کے مطابق ٹرمپ کی حلف برداری تقریب میں کچھ امریکی کاروباری رہنما ، جن میں ٹیسلا سے ایلون مسک، ایپل سے ٹم کک، ایمیزون سے جیف بیزوس اور میٹا سے مارک زکربرگ شامل تھے۔ ان کی کمپنیاں چین میں وسیع پیمانے پر کام کر رہی ہیں۔2018میں، ٹرمپ انتظامیہ نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کی، یہ مانتے ہوئے کہ امریکیوں کو نقصان ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے اضافی محصولات عائد کیے گئے۔ ایلون مسک نے شنگھائی گیگا فیکٹری کے آپریشن کے ذریعے چینی الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ چینی مارکیٹ ٹیسلا کی عالمی آمدنی میں 20فیصد سے زیادہ حصہ ڈالتی ہے ۔ٹم کک کی ایپل کی پیداوار چینی سپلائی چینز پر انحصار کرتی ہے، اور چینی صارفین اس کی عالمی آمدنی کا تقریباً پانچواں حصہ دیتے ہیں۔ اگرچہ ایمیزون چین میں مقامی ای کامرس مارکیٹ سے باہر نکل چکا ہے، اس کا سرحد پار ای کامرس پلیٹ فارم ہر سال لاتعداد چینی فروخت کنندگان کو عالمی سطح پر مصنوعات فروخت کرنے میں مدد کرتا ہے۔میٹا کا اشتہاری کاروبار بھی چینی کمپنیوں کے تعاون پر انحصار کرتا ہے، کیونکہ بہت سی چینی سرحد پار ای کامرس اور گیمنگ فرمیں اس کے اشتہارات پلیٹ فارم کے ذریعے بین الاقوامی منڈیوں میں داخل ہوتی ہیں۔ان کمپنیوں نے چین میں خاطر خواہ منافع کمایا ہے۔تاہم، چین-امریکا تجارتی تعلقات میں ابتری نے ان کمپنیوں کے بندھن کو کمزور کر دیا ہے۔ تجارتی جنگ، ٹیرف کی رکاوٹوں اور ٹیکنالوجی کی ناکہ بندی جیسے اقدامات، اگرچہ ظاہری طور پر امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے، نے بھی ان کمپنیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم سالانہ سینکڑوں ارب ڈالر ہے، چین-امریکا تجارتی جنگ کے دوران، امریکی صارفین اور کاروباری اداروں نے بڑھے ہوئے ٹیرف کا بوجھ برداشت کیا، جبکہ چینی برآمدی کمپنیوں کو بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر کار، کسی بھی فریق کو اس صورت حال سے فائدہ نہیں ہوا۔ فارن پالیسی میگزین کے مطابق ٹرمپ نے چین کے نئے ٹیرف کے ساتھ تجارتی جنگ کے خوف کو بھڑکا دیا۔ چینی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ اگلے ماہ سے تمام چینی درآمدات پر 10فیصد ڈیوٹی لگانے پر غور کر رہے ہیں، تاکہ بیجنگ کو میکسیکو اور کینیڈا میں افیون فینٹینیل کے بہاؤ کی اجازت دینے پر سزا دی جا سکے۔ چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ فینٹینائل کی پیداوار سے نمٹنے کے لیےاختلافات کو مناسب طریقے سے سنبھالنے اور باہمی فائدہ مند تعاون کو بڑھانےکے لیے تیار ہے۔ تاہم، وزارت کے ترجمان ماؤ ننگ نے کہاہم ہمیشہ یقین رکھتے ہیں کہ تجارتی جنگ یا ٹیرف جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، چین اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرے گا۔ ٹرمپ نے یکم فروری سے میکسیکو اور کینیڈا پر بڑے پیمانے پر 25فیصد محصولات عائد کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔ بلوم برگ کے مطابق ٹرمپ نے چینی محصولات کے منصوبے سے گریز کیا۔ انہوں نے چین کی بجائے کینیڈا اور میکسیکو پر محصولات پر توجہ مرکوز کی، جو کہ 25فیصد کا اشارہ دے رہا ہے۔ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس واپس آنے کے بعد امریکا اور چین کے تعلقات غیر متوقع طور پر گرمجوشی سے شروع ہو گئے ہیں۔ امریکی صدر نے ٹک ٹاک پر پابندی کو عارضی طور پر روک کر لائف لائن بھی دے دی، ٹرمپ نے تجویز پیش کی کہ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقاتیں اور کال کریں گے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق ٹرمپ کے تناؤ میں اضافے کے ساتھ ہی امریکی کمپنیوں کی ریکارڈ تعداد چین سے نکلنے کےلئے پر تولنے لگیں۔ٹیکنالوجی اور آر اینڈ ڈی میں سے زیادہ تر ممکنہ تجارتی تنازع کے درمیان نقل مکانی پر غور کر رہی ہیں ۔سروے میں شامل تقریباً نصف امریکی کمپنیوں نے کہا کہ وہ تجارتی کشیدگی کی وجہ سے اپنے چین کے آپریشنز کو دوسری جگہ منتقل کر رہی ہیں، یا ایسا کرنے پر غور کر رہی ہیں۔