اسلام آباد(مہتاب حیدر) پاکستان کے لیے 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (CPF) کے تحت 20 ارب ڈالر کے قرضے کے اجرا سے قبل، ورلڈ بینک کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر مارٹن رائزر نے کہا کہ پاکستان کو معاشی جھٹکوں سے بچنے کے لیے ثابت قدمی کے ساتھ ایک مشکل سفر طے کرنا ہوگا۔سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نجے بن حسین نے کہا کہ بینک نے درمیانی مدت کی حکمت عملی اور چھ ترجیحی شعبے مقرر کیے ہیں، جن میں بچوں کی نشوونما کی کمی، تعلیمی غربت، ماحولیاتی مزاحمت، عوامی مالیات اور سماجی شعبہ شامل ہیں۔ کنٹری مینیجر ذیشان شیخ نے کہا کہ تیزی سے بڑھتی آبادی ترقی کے فوائد سے محروم، نوجوانوں کی بڑی تعداد کی مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔2025-26 میں جی ڈی پی 3 فیصد رہنے کا امکان ہے، جبکہ قرضوں کی ضرورت جی ڈی پی کے 28فیصدہوجائیگی۔ عوامی اعتماد کمزور ہو چکا ،18ویں آئینی ترمیم کے باوجود مقامی حکومتیں بے اختیار اور مالیاتی عدم توازن برقرار ہے۔ بلوچستان اور سابق فاٹا میں عدم استحکام اور غربت عروج پر ہیں۔10سال میں ورلڈبینک گروپ سے 40ارب ڈالرلےچکاہوگاجوضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہوگی،ترجیحی شعبوں کے حوالے سے نجے بن حسین کا کہنا تھا کہ ان شعبوں کا تعین وسیع مشاورت کے ذریعے کیا گیا، جس میں صوبوں، سیاسی جماعتوں، ماہرین تعلیم، سول سوسائٹی اور دیگر طبقات کو شامل کیا گیا۔ورلڈ بینک نے پاکستان کے جی ڈی پی کی پانچ سالہ منصوبہ بندی کو "اڑان پاکستان" کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا عزم ظاہر کیا، لیکن قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ، غربت اور بے روزگاری کے بارے میں آئندہ دس سالوں کے دوران واضح جواب نہیں دیا، جب اسلام آباد ورلڈ بینک گروپ (WBG) سے 40 ارب ڈالر حاصل کریگا۔