السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
غلطی کا ازالہ
آپ کےسلسلے’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں میرے والد چوہدری علی اکبر سے متعلق میرا مضمون شائع کیا گیا، مگر غلطی سے مضمون کے ساتھ میرے والد کی بجائے کسی اور شخص کی فوٹو لگا دی گئی، جس کی وجہ سے میرے بیٹوں اور دیگر رشتے داروں کو سخت شرمندگی ہوئی۔
براہِ مہربانی اِس غلطی کی اصلاح کی جائے اور مَیں جو اصل فوٹو دوبارہ ارسال کررہا ہوں، وہ کسی مناسب جگہ لگا کر غلطی کا ازالہ کیا جائے۔ نیز، مَیں اپنے نانا پر بھی ایک تحریر بھیج رہا ہوں، وہ بھی جلد شائع کی جائے۔ (چوہدری رشید اختر، موضع جسوالہ، تحصیل کلر سیداں، راول پنڈی)
ج: آپ نے اپنے مضمون کے ساتھ بھی یہی تصویربھیج رکھی تھی، مگر مسئلہ یہ درپیش رہا کہ تصویر اِس قدر دھندلی اور بوسیدہ ہے کہ کسی طور قابِل اشاعت نہیں، لہذا آپ کے مضمون کے ساتھ ایک اسکیچ لگایا گیا، جیسا کہ ہم عموماً ایسی تحاریر پر، جن کے ساتھ مذکورہ شخصیات کی اوریجنل تصاویر موصول نہیں ہوتیں، لگاتے ہی رہتے ہیں۔ اب اگر آپ کے بیٹوں، رشتےداروں اورخُود آپ کویہ بات سمجھ نہیں آئی، تو یہ غلطی آپ کی ہے، نہ کہ ہماری۔ سو، درستی بھی آپ ذاتی طور پر فرمالیں۔
نوشیرواں زندہ باد
’’جیو‘‘ کے سُپرہٹ ڈرامے جاں نثار کا خُوب صُورت ہیرو، جس کا ڈرامے میں نام ’’نوشیرواں‘‘ ہے، فن کی بلندیوں پر ہے۔ بلاشبہ یہ ڈراما نوشیرواں ہی کی وجہ سے اِس قدر پاپولر ہوا۔ یوں بھی شوبز کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایسے حسین چہرے سامنے آئیں، جنہیں دیکھ کر آنکھیں سیراب ہوجائیں۔
ویسے تو لوگ سندھ کے سرداری، وڈیرہ شاہی نظام سے خوف زدہ رہتے ہیں، لیکن ’’جاں نثار‘‘ کے خُوب رُو گل فام نوشیرواں نے چھوٹے سائیں کے کردار میں سارے داغ دھو کر رکھ دیئے۔ بخدا ہم نے تو پوری بھارتی فلم انڈسٹری میں بھی ایسا ایک خُوب رُو جوان نہیں دیکھا۔
ہم سے پوچھیں تو اِسے شہزادے کالقب دیاجاسکتا ہے بلکہ نوشیرواں تو شہزادوں کا شہزادہ، مہا شہزادہ ہے۔ مَیں ’’جنگ گروپ‘‘ کو اِس دریافت پر مبارک باد دینا چاہوں گا۔ آپ سے گزارش ہے کہ جنگ، سنڈے میگزین میں نوشیراں کا تفصیلی انٹرویو شائع کریں۔ آخر میں ایک بارپھرکہوں گا، ’’نوشیرواں زندہ باد‘‘۔ (بشیر احمد بھٹی، فوجی بستی، بہاول پور)
ج : حضرت! آپ تو نوشیرواں کے عشق میں یہ بھی بھول گئےکہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا فارمیٹ کیا ہے۔ یہ صفحہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے مندرجات پر آراء کے لیے مختص ہے، ’’جیو‘‘ کے ڈراموں کی قصیدہ خوانی کے لیے نہیں۔ دوم ، یہ کہ آپ کے معشوق نوشیرواں ’’جیو‘‘ کی دریافت ہرگز نہیں۔ دانش تیمور تواب خاصے سینئر فن کاروں میں شمار ہوتے ہیں۔
غالباً2005 ء سے انڈسٹری میں موجود ہیں۔ اَن گنت ڈراموں، فلموں میں کام کرچُکےہیں اور اب تو ٹی وی ہوسٹ بھی ہیں، اور ہاں، آپ کے اِس شہزادوں کے شہزادے کو معروف اداکارہ عائزہ خان کے شوہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
کتابیں چَھپنا بند ہوگئیں؟؟
’’حالات و واقعات‘‘ میں ایک بار پھر منور مرزا کا ایک شاہ کار مضمون پڑھنے کو ملا، ہمیشہ کی طرح اچھے انداز میں تجزیہ پیش کیا گیا۔ قارئین کو اِن کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔’’متفرق‘‘ میں عبدالستار ترین کا مضمون پسند آیا۔ بلوچستان کی شاہ راہوں کی خستہ حالی کا تذکرہ افسوس ناک تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ زاہد بھٹی کا افسانہ ’’اسمِ اعظم‘‘ اور عندلیب زہرہ کا ’’سُکھاں‘‘ لاجواب تھے۔
’’نئی کتابیں‘‘ میں صرف دو کتابوں پر تبصرہ کیا گیا۔ کیا کتابیں چَھپنا بالکل ہی بند ہوگئی ہیں؟ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں سیّد زاہد علی نے بالکل ٹھیک کہا کہ یہ آئی پی پیز کیا بلا ہیں، جس کی حکومت نے رٹ لگائی رکھی ہے۔ سیدھے سیدھے کہو کہ بجلی انتہائی منہگی ہے اور ہاں، آپ نے تو آپ کاصفحہ میں ’’مرزا غالب‘‘ سے بھی ملاقات کروادی، زبردست بھئی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: کتابیں تو چَھپ ہی رہی ہیں، بس بعض اوقات ہم خُود جگہ کی تنگی کے سبب زیادہ کتب پر ری ویوز شائع نہیں کرپاتے۔ رہی بات، آئی پی پیزکی گُھمن گھیریوں کی، تو حکومتیں کوئی سیدھی بات بھلا کرتی ہی کہاں ہیں۔ ازل سے یہی روش عام ہے۔
شعرو شاعری کی کوشش
’’سنڈے میگزین‘‘ پڑھتے ہوئے بہت عرصہ ہوا، کئی مرتبہ خط لکھنے کا بھی خیال آیا۔ مگر قلتِ وقت اور آپ کی طرف سے رابطے کا طریقۂ کار معلوم نہ ہونا آڑے آتا رہا۔ اگرچہ اب بھی مجھے معلوم نہیں کہ آپ کے ہاں تحریر کی اشاعت کا کیا طریقۂ کار ہے۔
مگر کچھ دن قبل دراوڑ کی سیر کا موقع ملا، تو ایک سفرنامہ، جو معلومات کے اعتبار سے یقیناً ناقص ہے، مگر اِس خیال سے خط کے ساتھ بھیج رہا ہوں کہ ممکن ہے، آپ کے معیار پر پورا اُترہی جائے۔ دوم، خط کی پشت پر کچھ شعر و شاعری کی کوشش کی ہے، اُس پر بھی نظرِ کرم فرمائیے گا۔ (ابنِ نصرناصر، اوچ شریف، بہاول پور)
ج: آپ کی تحریر متعلقہ صفحہ انچارج کے سپرد کردی گئی اور اُمید تو یہی تھی کہ معیار پر پوری نہیں اُترے گی کہ ایک تو جو خود آپ کی نگاہ میں ناقص ٹھہری، اُس کا معیار کیا ہی ہوگا۔ دوم،خط کامتن اور شاہ کار اشعار پڑھ کے بھی دل خاصا مکدّر ہوا۔ دو اشعار قارئین سے بھی شیئر کیے لیتے ہیں۔
کردار کے اوراق کو پَھٹتے دیکھا…اشراف کے انصاف کو بکتے دیکھا… دیکھا ہے بہت کچھ ناصر کی نگاہوں نے…عورت کو سرِبازار مٹکتے دیکھا۔ بہرکیف، آپ کے لیے خوشی کی خبر یہ ہے کہ آپ کی تحریر کو بہرطور لائقِ اشاعت بنا ہی لیا گیا ہے۔
تنقید کیسے برداشت ہوگی؟
قریباً دوماہ پہلے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے حوالے سے خواتین، خصوصاً بیویوں سے متعلق ایک بظاہر تعریفی اور بباطن تنقیدی خط لکھا تھا، جواب تک شائع نہیں ہوا۔ شاید اِس لیےکہ جریدے کی مدیرہ ایک خاتون ہیں، تو وہ خُود پر تنقید کیسے برداشت کرسکتی ہیں؟
بہرحال، اِس خط کا مقصد سنڈے میگزین کے 3 نومبر 2024ء کے شمارے کی ایک غلطی کی طرف توجّہ مبذول کروانا ہے اور وہ یہ کہ ڈاکٹر قمر عباس کے ’’خانوادے‘‘ کے آخری حصّے میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے دو بیٹوں (بڑے اور منجھلے) کا ایک ہی نام یعنی انیق احمد لکھا گیا ہے۔
ظاہر ہے، دو بھائیوں کا ایک ہی نام نہیں ہوسکتا اور یہ غلطی ڈاکٹر قمر عباس کی بھی نہیں ہوسکتی۔ چناں چہ میری درخواست ہے کہ اپنے میگزین کےکسی آئندہ شمارے میں ابہام کو درست کردیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ (محمد عارف قریشی، فرنیچر مارکیٹ، بھکّر)
ج: آپ کا تنقیدی خط تو ایک عرصہ قبل شائع ہوچُکا ہے۔ رہی بات مذکورہ غلطی کی، تو اِس کی بھی معذرت اور اصلاح کی جاچُکی ہے۔
مہینے میں ایک دو تحریریں
آئندہ اِن شاء اللہ آپ کو مہینے میں ایک یا دو ہی تحریریں ارسال کی جائیں گی۔ ہاں، ’’اسموگ‘‘ کی بابت مزید اضافے کے ساتھ تحریر ارسالِ خدمت ہے۔ علاوہ ازیں، پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کی تحریر ’’اقبالؒ کا تصورِ اجتماع‘‘، ڈاکٹر یاسمین شیخ کی کاوش ’’الرجی، اقسام، متعدّد وجوہ‘‘ اور سابق آئی جی، ذوالفقار چیمہ کی ’’خودنوشت‘‘ سمیت ’’ناقابلِ فراموش‘‘ واقعات کا اندازِ بیان اتنا جان دار اور جامع تھا کہ سیدھے دل میں اُتر گئے۔ اور سرِورق کا تو کیا ہی کہنا، بے مثال، جاذبِ نظر اور پُرکشش!! (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)
ج: بڑی مہربانی۔
کوئی مول نہیں
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘میں پروفیسر حافظ حَسن عامر ’’توبہ استغفار کی اہمیت‘‘ سے آگاہ کررہے تھے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا تجزیہ ہمیشہ کی طرح لاجواب تھا۔ حافظ بلال بشیر نے کفایت شعاری کی ترغیب دی۔ رؤف ظفر’’چائلڈ لیبر‘‘ پرایک مفصّل رپورٹ لائے۔ ’’خود نوشت‘‘ کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ سابق رکن بلوچستان اسمبلی کے خیالات بھی اچھے لگے۔
پروفیسر ڈاکٹر غلام علی مندرہ والا نے جگر کی خرابی کی وجوہ اور علامات سے آگاہ کیا۔ انجینئرنگ کی طالبات کے حوالے سے قدر پرواز کا مضمون کچھ خاص سمجھ نہیں آیا۔ روبینہ یوسف نے اپنے افسانے میں ایک باوفا بیوی کا عکس پیش کیا۔ اور اب آئیے، ’’آپ کاصفحہ‘‘ کی طرف۔ اس شمارے میں ہمارا خط شامل کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں…
اُمیدِ واثق ہے کہ بمع میگزین ٹیم، بخیریت ہوں گی۔ پہلی دَفعہ اپنی شائع شدہ تحریر (خط) اور پھر اُس پر آپ کا جواب پڑھ کر بےحد خوشی اور حوصلہ افزائی ہوئی۔ ویسے تو میگزین کے تمام ہی سلسلے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، مگر صرف چند ایک ہی پر لکھ پاؤں گا۔ پچھلے کچھ شماروں میں شرلی مُرلی چند کےخطوط موجود نہیں تھے، خدا کرے، خیریت سے ہوں۔
’’خود نوشت‘‘ میں نیک نام پولیس آفیسر، ذوالفقار چیمہ کی داستانِ حیات بہت ہی ذوق و شوق سے پڑھی جارہی ہے۔ بلاشبہ ؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے… بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات ہی بہترین تھے۔ محمّد ہمایوں ظفر کا انتخاب عُمدہ ہوتا ہے۔ اور ’’فیچر‘‘ میں رؤف ظفر نے تو بس قلم ہی توڑ دیا۔ (محمّد صادق، شاد باغ کالونی، پشاور)
گلشن میں گُلوں کی مانند
کوٹ غلام محمّد، میرپورخاص کی طوبیٰ زینب مغل، کیا خُوب آئیں، بھائیں اور چھائیں۔ بہت زبردست بھئی۔ بابر سلیم خان، پرنس افضل شاہین، اشوک کمار کولھی، سید زاہد علی، شہزادہ بشیر محمد نقش بندی اور غلام رسول کے خطوط بھی گلشن میں گُلوں کی مانند مہکتے محسوس ہوئے۔
دیگر سلسلوں کی کیا بات کی جائے کہ سب ہی زندگی کو پُرسکون، خوش گوار بنائے جاتے ہیں۔ سوہنا اللہ ہم سب پر اپنا خاص کرم فرمائے۔ (ضیاءالحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: آمین، ثم آمین۔
شمارہ موصول ہوا۔ ؎ جس طرح اَدھ کُھلے گھونگھٹ میں دلہن کیا کہنا… مگر، سرِورق پر توماڈل کا گھونگھٹ پورا کُھلا ہوا تھا۔ خیر، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی ’’توکل علی اللہ‘‘ کےفضائل قرآن و حدیث کی روشنی میں بتا رہے تھے۔ سلسلۂ نقشبندیہ کے ’’توکل علی اللہ‘‘ سے متعلق ایک بزرگ کا قول یوں ہے کہ ’’اگر تُو تین دن کے فاقے سے ہو اور دروازے پر کوئی دستک دے، تو تیراخیال یہ نہ ہو کہ کوئی کھانا لے کر آیا ہے۔
دھیان صرف اللہ کی طرف ہو۔‘‘ بےشک موجود اسباب اور کوشش کر کے اللہ پر بھروسا ’’توکل‘‘ ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا، ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی وعدوں کا تجزیہ کررہے تھے۔ چوبیس گھنٹوں میں جنگ بند کرنے کا دعویٰ تو ہمیں پچاس لاکھ نوکریاں دینے کے دعوے جیسا ہی لگا۔ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا۔ لگتا ہے، ٹرمپ بھی ہمارے لیڈر سے متاثر ہیں۔
’’اشاعتِ خصوصی‘‘میں پروفیسر سیما ناز صدیقی اسموگ کے خاتمے کے لیے انفرادی و اجتماعی کوششوں پر زور دے رہی تھیں، جب کہ شاہ نواز خان نے پنجاب اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں اہم ترامیم پاس کرنے کے رُوداد سنائی۔
ویسے ایسا ہر صوبائی اسمبلی میں ہونا چاہیےکہ عوام کو پتا تو چلے ہمارے نمائندے کر کیا کررہے ہیں۔ اور یہ دھرنے، جلوس صرف ایک شخص کی رہائی کے لیے کیوں ہیں، منہگائی، بے روزگاری، اسموگ، بجلی، گیس کے بھاری بھرکم بلز، صحت و تعلیم کی زبوں حالی کےخلاف کوئی دھرنا کیوں نہیں ہوتا، جو درحقیقت عوام کے سلگتے مسائل ہیں اور جن کی وجہ سے غریب عوام خُودکشیاں تک کررہے ہیں۔
کرم ایجینسی میں سیکڑوں افراد آپس کے جھگڑوں میں زخمی و ہلاک ہوگئے اور وزیرِاعلیٰ جلوس لے کر اسلام آباد پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ تف ہے، ایسے حُکم رانوں پر۔ ’’فیچر‘‘ میں بیویوں سے متعلق لطائف ادبی چٹخاری کےزمرے ہی میں آسکتے ہیں، حقیقتاً ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یہاں تو آج بھی عورت ونی، سَتی اور کاروکاری کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔
’’انٹرویو‘‘ میں رؤف ظفر نے ماہرِ موسمیات سے اسموگ کے ضمن میں بہت مفید بات چیت کی، جو جنگی بنیادوں پراقدامات کا کہہ رہے تھے، جب کہ مریم بی بی (وزیرِاعلیٰ پنجاب) لاہوریوں کو اسموگ میں چھوڑ کر والد صاحب کے ساتھ یورپ کی سیر و سیاحت کو جا نکلیں۔
’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نے اپنے رائٹ اَپ سے دلہنوں کے حسن و جمال کو چار چاند لگا دیئے۔ نیز، ہماری معلومات میں یہ بھی اضافہ ہوا کہ ’’عروس‘‘ دراصل دلہن کو کہتے ہیں، وگرنہ ہم تو ’’شبِ عروسی‘‘ شادی کی پہلی رات ہی کو سمجھے بیٹھے تھے۔ پاکستان پولیس کے سابق آئی جی اپنی کہانی، خُود اپنی زبانی بیان کررہے ہیں۔
پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ اپنی سروس کے دوران اپنے جیسے کچھ فرض شناس آفیسر بھی تیار کرسکے یا نہیں۔ اب تو وہ سلوگن ’’پولیس کا ہے فرض، مدد آپ کی‘‘ بھی کہیں نظر نہیں آتا کہ جس سے یہ اطمینان ہوتا تھا کہ ہمارے کچھ مددگار بھی موجود ہیں۔ ’’اُف! یہ میاں، بیوی…‘‘ جیسے لطائف کے بعد منور راجپوت نئی کتابوں پر سنجیدہ تبصرہ کرتے نظر آئے، جب کہ ہمارے صفحے پر مرزا غالب کی مسند نشینی خُوب بھائی۔ گویا مکتوب ڈیڑھ سو سال کا سفر طے کرکے ہم تک پہنچا۔ (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: اور یہ جو شہرکراچی کو ایک عرصے سے ’’عروس البلاد‘‘ کہا جاتا ہے، تو آپ اِس سے کیا مُراد لیتے رہے ہیں؟؟
* آپ کے جریدے میں ایک مضمون ’’موت کے دامن میں پناہ لینے والے لوگ‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ مضمون میں لکھا گیا کہ ڈبلیو ایچ او کے اعداد وشمار کے مطابق، خُودکشی کی شرح کے اعتبار سے پاکستان کا چھٹا نمبر ہے، جب کہ مُلک میں خُودکشی کے سبب شرحِ اموات2.9 بتائی گئی، جوکہ ظاہر ہے، دیگر ممالک سے خاصی کم ہے۔
گرچہ انتہائی حسّاس موضوع پر ایک تحقیقی رپورٹ تیارکروانے پہ مَیں آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہوں، لیکن اگراِس ضمن میں بالکل درست اوراَپ ڈیٹڈ اعداد و شمار بھی پیش کیےجاتے، تو یہ کاوش زیادہ مستحسن ہوتی۔ معتبر ذرائع سے تازہ ترین دست یاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خُودکُشی کی شرح 8.9 ہے، مگریہ بھی دنیا کے کئی ممالک سے کم ہے۔ بہرحال، میری درخواست ہےکہ آپ اِس ضمن میں کوئی فالو اَپ مضمون شائع کرنے پر بھی غور کریں۔ (صدف۔ ایم)
ج: صدف! اصلاح و رہنمائی کابےحد شکریہ۔ یہ بات سوفی صد سچ ہےکہ دیگر کئی مسائل کے ساتھ ہمارے مُلک میں کسی بھی حوالے سے درست اور تازہ ترین اعداد وشمار کی دست یابی بھی ایک کارِمحال ہی ہے۔ لیکن اگرآپ کے پاس کچھ مصدّقہ اعداد و شمار موجود ہیں اور آپ اُن کی روشنی میں ہمارے لیے کچھ لکھنا چاہیں، تو ہم نہایت خوش دلی سےآپ کا خیر مقدم کریں گے۔
* مجھے یہ دریافت کرنا ہے کہ کیا اس ایڈریس پر سنڈے میگزین کے لیے افسانے بھجوائے جا سکتے ہیں؟ (راضیہ سید)
ج: جی، بالکل۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے لیے ہر تحریراسی ای میل ایڈریس پر بھجوانی چاہیے کہ یہ ای میل آئی ڈی بنائی ہی اِسی مقصد کے لیے گئی ہے۔
* شمارہ ہاتھ آتے ہی حسبِ عادت پورا چٹ کرڈالا، ہضم کرلیا۔ حیدرآباد سےارسلان اللہ خان نے پوچھا تھا کہ فرہاد کہاں رہتاہے؟ تو بھائی، فرہاد، ناظم آباد نمبر دو، کراچی میں رہتا ہے۔ (تیشۂ فرہاد)
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk