السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
قہقہے نکل گئے ؟
ہم جیسوں کے لیے تو اب مونگ پھلی ہی سردیوں کی سوغات رہ گئی ہے۔ دو سال پہلے چلغوزے کے چند دانے چکھے تھے۔ لاہور میں ایک معروف ادیب، موٹیویشنل اسپیکر کے آفس میں۔ وہ آپ کے موسمِ سرما کے ٹائٹلز دیکھ کر یاد آگئے۔ خیر، محمّد یٰسین شیخ، نبیٔ مہربان ﷺ کی تربیت، کردار سازی اور اسوۂ حسنہ پر ایک بہترین تحریر لائے۔ منور مرزا ہمیشہ ہی حالاتِ حاضرہ پر زبردست تحریر لکھتے ہیں۔
علامہ اقبال کی شخصیت کی مناسبت سے ڈاکٹر عابد شیروانی اور دانیال حسن بھی اچھے موضوعات احاطۂ تحریر میں لائے۔ شمارے کی خاص الخاص تحریر، ڈاکٹر قمر عباس کی ’’داستان سرائے کے مکین‘‘ تھی۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ اُردو ادب کے بڑے نام ہیں۔
درمیانی صفحات پرآپ کی تحریر’’رنگ و بُونورکے پیکر ہیں یہ سارے بچے…‘‘ کا پہلا پیراگراف پڑھتے ہوئے اپنی والدہ کی یاد آتی رہی۔ وہ کہا کرتی تھیں۔ ’’شادی کرلو، بچّے ہوں گے، تو دل لگےگا۔ ایک بچہ اپنی شرارتوں، حرکتوں سے سارے گھر کا ماحول بدل دیتا ہے۔‘‘ اور سو فی صد درست ہی کہتی تھیں۔
آج جب بھی ذرا سا بھی اسٹریس ہوتا ہے، اپنے ایک سالہ بیٹے کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتا ہوں اورذہنی دبائو، تناؤ کا نام ونشان نہیں رہتا۔ ذوالفقار احمد چیمہ کی آپ بیتی بہت خوب جارہی ہے۔ اُن کے حالاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ ہمارے سسٹم کی بھی اَن گنت خرابیاں سامنے آرہی ہیں۔ ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ عبدالجبار رومی انصاری کی رہی۔
خادم ملک کی 15کروڑ روپے اور کرولا کار کی فرمائش پر ہنسی چُھوٹ گئی اُن کے ذہن میں شاید یہ بات ہے کہ جیسے ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صلاحیت و قابلیت کے بجائے حرکات کے سبب امریکا کے صدر بن گئے ہیں، تو شاید اِسی طرح اُن کی خواہش بھی پار جالگے۔
سیّد زاہد علی کےخط کے جواب میں آپ نے لکھا کہ ’’کہیں آپ کنبھ کے میلے میں بچھڑے ہوئے بھائی تو نہیں ہیں۔‘‘ تو بےاختیار ہی قہقہے نکل گئے۔ گھر والے پوچھتے رہ گئے کہ ’’خیریت ہے؟‘‘کیوں کہ اِس سے پہلے ایسے قہقہے ہاتھ میں موبائل پکڑ کر ہی نکلتے تھے۔ (رانا محمد شاہد، 26گلستان کالونی، بورے والا)
ج: آپ نے ہماری بات کو مذاق سمجھا، لیکن یقین کریں، ہمیں سیّد زاہد علی کی خادم ملک سے محبّت و عقیدت پر رشک آتا ہے۔
دو دھاری تلوار…
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اُمید رکھتا ہوں کہ اہلِ بزم خوش و خرّم ہوں گے۔ سورج نامہ چمکا، تو ہمارا چہرہ دمکا۔ ’’حالات و واقعات ‘‘ خُوب منور تھے۔ وحید زہیر کی نواب محمّد اسلم رئیسانی سے ’’گفتگو‘‘ بہترین تھی۔ دائروں میں گھومتی معیشت پر ’’سنڈے اسپیشل‘‘ کا جواب نہ تھا۔ اور چیمہ صاحب کی ’’خود نوشت‘‘ تو گویا دو دھاری تلوار ہے۔
’’ڈائجسٹ‘‘ میں فاطمہ شکیل نے فرضِ عین خوب نبھایا، تو سحر نے بھی اچھی غزل چھیڑی۔ ایک عام آدمی تو ہیروں پر سرمایہ کاری کا سوچ بھی نہیں سکتا، اختر سعیدی کے تبصرے خُوب تھے اور بزم کی کرسیٔ صدارت پر شہزادہ محمّد بشیر متمکن دکھائی دیئے، بہت مبارک ہو۔ (ڈاکٹرمحمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)
ج: بےشک ’’خُود نوشت‘‘ کا سچا، کھرا انداز ہی اِس کی حد درجہ مقبولیت کا باعث ہے۔
آدھے گھنٹے کے لیے مُرغا
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے بڑا فکر انگیز مضمون تحریر کیا۔ وحید زہیر نے سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان، نواب محمّد اسلم خان رئیسانی سے شان دار معلوماتی گفتگوکی۔ سنڈے اسپیشل میں سلیم اللہ صدیقی نے پاکستانی معیشت کا حال احوال بیان کیا۔ اور’’خود نوشت‘‘ کے تو کیا ہی کہنے۔ ’’متفرق‘‘ میں محمد عُمر اسرار کے خیالات کچھ خاص پسند نہیں آئے۔ اگلے شمارے کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا ایک اور لاجواب تجزیہ پڑھنے کو ملا۔
سید ثقلین علی نقوی نے خیبر پختون خوا اور آزاد کشمیر میں زلزلے کے 19 سال بعد کا احوال عُمدگی سے رقم کیا۔ رؤف ظفر پاکستانی پاسپورٹ کی گراوٹ کا ذکر کررہے تھے۔ چیمہ صاحب کی داستانِ حیات انتہائی دل چسپ اور سبق آموز ہے۔ شمارے میں ہمارا خط تو شامل نہیں تھا، مگر خادم ملک کی چٹھی ضرورجگمگا رہی تھی۔ یہ پڑھ کر دُکھ ہوا کہ اُن کی بیگم اُنہیں روز آدھے گھنٹے کے لیے مرغا بناتی ہیں۔ تیسرے ایڈیشن میں بھی منور مرزا کا بےمثال تجزیہ معلومات میں اضافے کا سبب بنا۔
دانیال حسن چغتائی نے علامہ اقبال کے عشقِ رسولﷺ پر عُمدہ قلم آرائی کی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر اظہر چغتائی نے خنّاق سے متعلق انتہائی معلوماتی مضمون تحریر کیا۔ ڈاکٹر قمر عباس ’’داستان سرائے کے مکین‘‘ کے عنوان سے لازوال نگارش لائے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی تحریر چوں کہ بچّوں سے متعلق تھی، تو جیسے دل چُھو گئی۔ اللہ پاک ان بچّوں کی عُمر دراز کرے۔ اوررہی، ’’خود نوشت‘‘ تو بس وہ تو اپنی مثال آپ ہے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3، کراچی)
ج: مُرغا بننے والے تو اپنا کارنامہ فخریہ بیان کرتے ہیں اور آپ کو دُکھ ہورہا ہے، ہمیں ’’اس بات‘‘ کا زیادہ دُکھ ہے۔
آواز اُٹھانے والا…
’’حالات و واقعات‘‘میں منور مرزا موجود نظر آتے ہیں اور ایک انتہائی معلوماتی، بھرپور تجزیہ ہماری نذر کرتے ہیں۔’’رپورٹ‘‘ میں اقصیٰ پرویز نے کراچی کے مسائل پر روشنی ڈالی اور ایک چھوٹے سے مضمون میں متعدد مسائل بیان کر کے رکھ دیئے، پڑھ کرخوشی ہوئی کہ کوئی ہمارے لیے بھی آواز اٹھانے والا ہے۔
’’متفرق ‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود کی داریوش مہرجوئی اور ایرانی سنیما پر معلوماتی نگارش بہت پسند آئی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں بابر سلیم کی والد سے متعلق تحریر دل سے لکھی گئی اور پھر ہم نے ناقابلِ اشاعت کی ساڑھے چھے سطروں کی لسٹ بھی پوری پڑھ ڈالی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: ویسے ہماری رائے میں تو اب حُکم رانوں کے سامنے کراچی کے لیے محض آواز نہیں، لِتّر اُٹھالینا چاہیےکہ جنھوں نے کراچی کو موہن جو دڑو بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ وزیرِاعلیٰ صاحب اگر ایک دن صرف ہمارے گھر سے آفس تک کےرستے ہی کا سفر کرلیں، تو بخدا اگلے دن کسی آرتھوپیڈک سرجن کے پاس بیٹھے ہوں گے۔
پہلے تو گڑہوں میں کہیں کہیں کوئی سڑک دکھائی دے بھی جاتی تھی، اب جو حالیہ نئی گیس پائپ لائنز کے نام پر کھدائی ہوئی ہے، اُس میں وہ بھی دفن ہوگئی ہیں۔ حال ہی میں لاہور، پنڈی جانے کا اتفاق ہوا تو محسوس ہوا کہ ہم اہلیانِ کراچی تو شاید پاکستان کاحصّہ ہی نہیں ہیں، وگرنہ اس قدرتفریق کیسے ممکن ہے۔
مکمل طور پر چھا گئے ہیں
محمّد یٰسین شیخ اسوۂ نبویؐ کی روشنی میں اسلام میں تعلیم و تربیت کی اہمیت اور رہنما اصول لیےآئے، بہت اچھا لگا۔’’حالات و واقعات‘‘ پر بہت گہری نظر رکھنے والے انتہائی محبِ وطن لکھاری منور مرزا نے اپنی تحریر میں امریکی انتخابات پر نہایت شان دار تبصرہ کیا۔
آئی جی جیل خانہ جات، بلوچستان ملک شجاع الدین کاسی سے فرّخ شہزاد ملک کی بات چیت مفید رہی۔ ’’متفرق‘‘ میں اسرار ایوبی کا کہنا بجا کہ بزرگوں کی بڑھتی عُمر کو قبول کرنا چاہیے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کرن نعمان نے ’’دوسرا موڑ‘‘ کے ذریعے جھنجھوڑ کررکھ دیا۔
ڈاکٹر عابد شیروانی کی شاعرِ مشرق کی مشہور نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ سے متعلق تحریر بےمثال تھی۔ دانیال حسن چغتائی بھی علامہ اقبال اور عشق رسولؐ کے موضوع پر لاجواب نگارش لائے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں خناق کے موضوع پر ڈاکٹر اظہر چغتائی کا مضمون بےحد معلوماتی ثابت ہوا۔
’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کو چہکتے مہکتے، چاند ستاروں جیسے بچّوں کےساتھ آپ کی تحریر نے بھی خُوب سجایا مہکایا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ اس بار قصور کے عبدالجبار رومی انصاری کےنام رہا، تو برقی قلم کار قرات نقوی کا بہت بہت شکریہ کہ ہمارا منظوم تبصرہ پسند فرمایا۔ (ضیا الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
خوشیاں دیتی رہا کریں
ہمیشہ کی طرح آج بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ پہلے میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ موجود تھا، مگر دوسرےمیں نہیں۔ امریکی انتخابات سے متعلق تجزیہ بھرپور رہا۔ ’’خنّاق، اچانک نئی لہرتشویش ناک امر‘‘انتہائی معلوماتی اور موثر تحریر تھی۔ ’’خانوادے‘‘ میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کو موجود دیکھ کر ازحد خوشی ہوئی۔
کبھی کبھی ایسی خوشیاں دیتی رہا کریں۔’’اسٹائل‘‘ کے صفحات پر بچے چھائے ہوئے تھے، تو’’خود نوشت‘‘ کی دونوں اقساط شان دار تھیں۔ آئی جی جیل خانہ جات، بلوچستان ملک شجاع الدین کاسی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر کےانٹرویوز کا جواب نہ تھا۔
قارئین سے گزارش کروں گا کہ اپنے بوڑھے والدین کو ہرگز نظر انداز نہ کریں۔ اُن کی خدمت کریں، وقت دیں اور اُن سے سیکھیں کہ اُن کے تجربات آگے جاکر آپ کے بہت کام آئیں گے۔ اور واہ جی واہ! اِس بار تو دونوں شماروں میں ناچیز کے خطوط اور’’ڈائجسٹ‘‘ میں سنہری باتیں بھی شامل تھیں، دل خوش ہوگیا۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: ہماری تو پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہر ہفتے ہی جریدے میں کوئی نہ کوئی خاصّے کی چیز ضرور ہوتا کہ قارئین سے ہمارا تعلق مضبوط سے مضبوط تررہے۔
کون سی قیامت آگئی…
’’اسٹائل‘‘ کی تحریر میں آج کل رنگوں کا ذکر نہیں ہو رہا۔ وہ کیا ہے ؎ کبھی شفتالو کبھی بینگنی، اودے اودے، نیلے پیلے پیرہن۔ اور ہاں، ہمیں یہ غلط مصرع لکھنے پر بھی کوئی ندامت نہیں کہ جب پورے مُلک میں اس قدر کھلواڑ ہو رہا ہے، عوام کی جیب سے بجلی کے بلز کے ذریعے اربوں کی وصولی کی جارہی ہے، تو ہم نے اگر ایک مصرع غلط لکھ دیا، تو کون سی قیامت آگئی۔
اور یہ ’’سنڈے میگزین‘‘ دن بدن کم زور سے کم زور تر کیوں ہوتا جارہا ہے۔ میڈیا انڈسٹری زوال کا شکار ہے، تو مُلک میں کون سا شعبہ عروج کی جانب گام زن ہے۔ شُکر ہے پاکستان نے انگلینڈ کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دے دی۔ اب براہِ مہربانی ساجد خان کا انٹرویو جلد ازجلد شائع کردیں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج : آپ سے کس نے کہا کہ ایک غلط مصرع لکھنے پر کوئی قیامت آسکتی ہے، کیوں کہ اگر آپ کی اونگیوں بونگیوں ہی پر قیامت آنی ہوتی تو آج تک آپ جو جو کچھ فرما چُکے ہیں، اب تک تو جنّت، دوزخ کے سارے فیصلے بھی ہوگئے ہوتے۔
فی امان اللہ
اُمید ہے، خیر وعافیت سے ہوں گی۔ ایک طرف تو پورے میگزین کا معیار قائم رکھنا، دوسری طرف ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آنے والے خطوط کا جوکھم، پھر ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کو بھی موتی جیسے الفاظ سے سجانا، اُس پر دل چُھولینے والی شاعری کا انتخاب کرکے تحریر کے حُسن کو چار چاند لگانا۔ قصّہ مختصر، ہر ہفتے قارئین کے لیے اس قدرشان دارمیگزین کی تیاری، بلاشبہ آپ ہی کا خاصّہ ہے۔
سارا سال ہی ایک سے بڑھ کر ایک جریدہ پڑھنےکو ملتا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں شامل ہونے والی ہر تحریر ہی خُوب ہوتی ہے۔ ’’شعرائے کرام‘‘ سلسلہ دل کو خُوب بھایا۔ فارسی شعراء سے متعلق اتنے مفصّل انداز میں پہلی بار ہی پڑھا۔ ’’یومِ اساتذہ‘‘ کے موقعے پر دونوں تحریریں بہت بہترانداز میں لکھی گئیں۔ مَیں بھی اُن طلبہ میں شامل ہوں، جو آج بھی پرائمری سے لےکر یونی ورسٹی لیول تک کے تمام اساتذہ کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔ اور آج بھی اُن کا تذکرہ بہت تعظیم و احترام سے کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سومیہ اقتدار، سابق رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار، ڈائریکٹر جنرل زراعت محمّد اختر بزادر اور ملک شجاع الدین کاسی کے انٹرویوز نے ڈھیر ساری معلومات فراہم کیں۔ ڈاکٹر عابد شیروانی کی شاہ کار تحریر’’اقبال کی اہلِ اسپین کو دعوتِ اسلام‘‘ انتہائی اہم پیغام لیے ہوئی تھی۔ ’’خانوادے‘‘ میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ پر ڈاکٹر قمر عباس کی تحریر شاہ کار ٹھہری۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا جب بھی کسی موضوع پر لکھتے ہیں، تو ماضی، حال اور ممکنہ مستقبل سبھی کو اپنی تحریر میں سمیٹ دیتے ہیں۔
جو معلومات ہمیں الیکٹرانک میڈیا فراہم نہیں کرتا، منور صاحب اپنی تحریروں کے ذریعے بہت غیر جانب دارانہ انداز سے ہم تک پہنچاتے ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں چکن گونیا سے متعلق مضمون بروقت شائع ہوا اور بہت ہی باریک بینی سے لکھا گیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی ’’آئینہ دیکھا کریں‘‘ ناقابلِ فراموش کی’’لگ رہا تھا دل پھٹ جائے گا‘‘ اور ’’متفرق‘‘ کی ’’عدم تحفظ کا شکار بڑھاپا‘‘ اور’’عام آدمی‘‘ زبردست کاوشیں لگیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘کےافسانے دوسرا موڑ، درد، اکیسواں سوئیٹر اور آخری خواہش بہترین تھے۔
جن میں یہی سمجھایا گیا کہ ہم جہاں جس منصب، مرتبے پر بھی فائزہیں، اپنی ذمّے داریاں، فرائض پوری ایمان داری سےادا کریں۔ ’’انجینئرنگ کی ہونہار طالبات‘‘میں مزاح کے ساتھ خُوب آگہی بھی فراہم کی گئی۔ فوج کی سخت ٹریننگ سے تو سب ہی واقف تھے، مگر اب ذوالفقار چیمہ کی ’’خود نوشت‘‘ پڑھ کرجان گئے ہوں گے کہ پولیس آفیسر بننا بھی کوئی خالہ جی کا گھر نہیں،پھر طرزِ تحریر بھی عُمدہ ہے۔
آخر میں ذکر، پچھلے سال سے فلسطین پر جاری اسرائیلی بدترین جارحیت کا، میگزین میں شائع ہونے والی ہر تحریر خواہ وہ نثرتھی یا منظوم، بہترین انداز لیے ہوئے تھی۔ تقریباً ہر ایک تحریر ہی ایسی تھی کہ پڑھ کر آنکھیں نم ہوتی رہیں اور ہر بار یہ سوال ذہن میں گردش کرتا رہا کہ آخر اُمتِ مسلمہ متحد کیوں نہیں ہوسکتی؟ اِس دُعا کے ساتھ اجازت کہ اللہ تعالیٰ آپ کی پوری ٹیم، تمام پاکستانیوں اور کُل اُمتِ مسلمہ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ (شیما فاطمہ، کورنگی، کراچی)
ج: بہت خُوب۔ کچھ لوگ ہمیشہ ’’دیر آید، درست آید‘‘ کی عملی تفسیر ہی معلوم ہوتے ہیں۔
* کیا مَیں ’’سنڈے میگزین‘‘ میں اشاعت کے لیے اپنی کوئی تحریر اِسی ای میل ایڈریس پر بھیج سکتی ہوں؟ (تعبیر فاطمہ)
ج: جی، بالکل۔ یہ آئی ڈی بنائی ہی اِسی مقصد کے لیےگئی ہے۔
* آئی پی پیز سے متعلق ایک اچھا مضمون پڑھنے کو ملا۔ اس حوالے سے میری معلومات یہ ہیں کہ پاکستان میں آئی پی پیز کی بدمعاشی اور لوٹ مارکو سابقہ اور موجودہ حکومتوں کی مسلسل حمایت حاصل تھی اور ہے، کیوں کہ ان آئی پی پیز کے مالکان اور بڑے شیئر ہولڈرز میں پاکستان کے بڑے بڑے سیاست دان و اعلیٰ سرکاری افسران شامل ہیں۔ اور ایک بات اور یاد رکھیں، بجلی کی قیمت جتنی زیادہ بڑھتی جائے گی، عوام میں بجلی چوری کا رجحان بھی اتنا ہی بڑھے گا۔ (محمّد کاشف، نیو کراچی، کراچی)
ج: گرچہ بجلی کی قیمت میں اضافہ، چوری جیسے غیرقانونی فعل کے لیے قطعاً کوئی جواز فراہم نہیں کرتا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس مُلک کو اصل چُونا اِس کی اشرافیہ ہی نے لگایا ہے۔
* شمارہ کھولا اور سب سے پہلے اسکرول کر کے ’’رومی‘‘ کی آخری قسط کا مطالعہ کیا۔ ’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل کافی غصّے میں لگی، تو نظریں چُرا کر جلدی سے آپ کی تحریر پڑھ ڈالی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں بنگلادیش کے افسانہ نگار سے متعلق واقعہ دل دہلا دینے والا تھا۔ جب کہ دوسرا واقعہ گھرکی ماسی سے شروع ہو کے اسکول ٹیچر اور اُن کے شوہر پر ختم ہوا۔
’’آپ کا صفحہ‘‘ میں صوفی محمد اقبال کا خط پڑھ کے تو شدید غصّہ آگیا۔ آپ ہی کا حوصلہ ہے کہ سب سہہ جاتی ہیں۔ خادم ملک پرانے خطوط نگاروں کو یاد کررہے تھے، تو مجھے بھی سب کی کھٹی میٹھی باتیں یاد آگئیں، خاص طور پر ڈاکٹر ذیشان تو بہت ہی اچھے خطوط لکھتے تھے۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)
ج: واقعی، ڈاکٹر ذیشان تو ہمیں بھی اکثر و بیش تر یاد آجاتا ہے۔ بہت ہی خُوب صُورت خطوط لکھا کرتا تھا۔
* ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا امریکی صدارتی انتخابات سے متعلق تجزیہ بہت ہی زبردست، شان دار تھا۔ ( دلدار گلزار، محلہ راجا سلطان، راول پنڈی)
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk