کراچی (ٹی وی رپورٹ) سینیٹر حامد خان نے چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد سے چیف جسٹس لینے کے بجائے باہر سے لا کر مسلط کرنا آرٹیکل 200 کا غلط استعمال ہے۔ ان کے بقول، آئین میں اسکی گنجائش موجود ہے، لیکن موجودہ حالات میں اس کا استعمال بدنیتی پر مبنی ہے اور آئینی اصولوں کیخلاف ہے۔
عمران خان کے کیسز میں اپیل سے متعلق کہا کہ حکومت اپنی مرضی کے چیف جسٹس کی تقرری چاہتی ہے تاکہ مقدمات من پسند ججز کے سامنے لگائے جا سکیں، پراپرٹی سیکٹر پر ٹیکس کٹوتی کی تیاری سے متعلق رکن حکومتی ٹاسک فورس عارف حبیب نے کہا ہے کہ رئیل اسٹیٹ میں پلاٹوں کی خرید و فروخت اور کنسٹرکشن کو ایک جیسا سمجھنا غلط ہے۔
کنسٹرکشن سیکٹر پہلے ہی بھاری ٹیکس ادا کر رہا ہے، جبکہ پاکستان میں ایک کروڑ گھروں کی کمی ہے، جسے پورا کرنے کیلئے کنسٹرکشن اس سیکٹر پر فوکس اور پالیسی میں نرمی ضروری ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز پروگرام ”نیا پاکستان“ میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔سینیٹر حامد خان نے کہا کہ اسلام آباد میں سے چیف جسٹس نہیں لینا بلکہ امپورٹ کر کے مسلط کرنا ہے یہ آرٹیکل 200 کا غلط استعمال ہے۔
آئین میں شق موجود ہے لیکن اس موقع پر استعمال کرنا بدنیتی ہے اور پھر جس انداز سے ہو رہا ہے وہ آئین کی منشاء کے مطابق نہیں ہے۔ یہ معاملات کئی دنوں سے چل رہے تھے اس لیے پانچ ججز نے خط لکھ کر تحفظات کاا ظہار کیا ہے۔
قانونی راستہ ضرور ہے لیکن قانونی اور آئینی اصول ہے کہ میلافائڈی چیز قابل قبول نہیں ہوتی چاہے آئین میں گنجائش موجود بھی ہو۔ احتجاج پہلے بھی ہوا ہے لاہور میں کافی بڑی ریلی نکالی گئی تھی اور کل اسلام آباد میں وکلاء کی ریلی نکلے گی اور کنونشن بھی ہے ہمارا احتجاج مسلسل چل رہا ہے۔
اس کی مخالفت کرنے والے وکلا حکومتی ہیں اور اس طرح کی قلیل تعداد ہمیشہ موجود رہتی ہے بعض اوقات تعداد زیادہ بھی ہوجاتی ہے یہ طبقہ اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔
عام آدمی پر ٹیکس بڑھانے کے بعد پراپرٹی سیکٹر پر ٹیکس کٹوتی کی تیاری سے متعلق رکن حکومتی ٹاسک فورس عارف حبیب نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ میں پلاٹوں کی خرید و فروخت شامل ہے اور اس کو کنسٹریکشن کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے جبکہ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
کنسٹریکشن بہت زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہوتا ہے انڈیسٹریز سے بھی زیادہ ٹیکسز ہیں مجموعی طور پر پاکستان میں ایک کروڑ گھروں کی کمی ہے جس کو پورا کرنے کی ضرورت ہے اس سیکٹر پر فوکس کیا جارہا ہے پلاٹ جب خریدا جاتا ہے اور جب اسے کے آخری استعمال کرنے والا خریدتا ہے تو اس پر ایک سو پندرہ فیصد ٹیکس شامل ہوتا ہے۔
پلاٹ کنسٹریکشن کا را میٹریل ہے اور اگر پلاٹ پر ٹیکسز بڑھا دئیے جائیں تو بالآخراس کا بوجھ اینڈ یوزر تک ہی جائے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایڈوانس ٹیکسز کی کمی کی بات ہو رہی ہے یہ صرف فرق کے ساتھ ہوگا ٹیکس ختم کرنے کی بات نہیں ہو رہی ہے نارمل ٹیکس لگنے ہیں۔
پالیسی میکر کو چاہیے کہ جہاں زمین بطور را میٹریل استعمال ہوتی ہے وہاں ٹیکس کم رکھیں اور جہاں ٹریڈنگ ہوتی اس کو یقینا دوسرے انداز سے ٹریٹ کریں لیکن جہاں ہائر ٹیکس آپ نے لگایا ہے اگر وہ کنسٹریکشن میں منتقل ہوجاتا ہے تو اس کو ریفنڈ کردیں ۔اس سے ان کا مقصد بھی حاصل ہوگا اور جو لوگ واقعی پلاٹ گھر بنانے کی نیت سے خرید رہے ہیں وہ بھی ہیوی ٹیکسز سے محفوظ رہیں گے۔