کراچی(سید محمد عسکری) سندھ میں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں داخلوں کی ذمہ دار لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز (لمس) کے رجسٹرار نے نجی کالجز کی جانب میرٹ لسٹ کے مطابق داخلہ نہ دینے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں لیاقت نیشنل کالج کے پرنسپل کو “داخلے سے انکار سے متعلق شکایات” کے موضوع پر خط بھی تحریر کردیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ محکمہ صحت، حکومت سندھ کے نوٹیفکیشن اور پی ایم اینڈ ڈی سی ریگولیشن کی تعمیل میں، لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز، جامشورو نے داخلہ کا عمل شروع کیا، داخلہ پورٹل کھولا اور امیدواروں کی پسند اور میرٹ کی ترجیح کی بنیاد پر انتخابی فہرستوں کو حتمی شکل دی۔ اس کے بعد یہ فہرستیں متعلقہ کالجوں بشمول آپ کے کالج کو مزید داخلہ کی کارروائی کے لیے بھیج دی گئیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ انتہائی تشویش کے ساتھ مطلع کیا جاتا ہے کہ ہمیں آپ کے کالج کی طرف سے بغیر کسی معقول وجہ کے داخلہ نہ دینے کی بہت سی شکایات موصول ہوئی ہیں جو کہ محکمہ صحت، حکومت سندھ اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ایکٹ 2022 کے نوٹیفکیشن کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ چناچہ آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس یونیورسٹی کی طرف سے مشترکہ طور پر صرف منتخب امیدواروں کی فہرست میں داخلہ لیا جائے۔ فراہم کردہ فہرست سے باہر امیدواروں کے کسی بھی داخلہ کو داخلہ یا PM&DC رجسٹریشن کے لیے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اگر آپ کا کالج اس طرح کے غیر مجاز داخلوں کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو، اس یونیورسٹی کے پاس اس معاملے کی رپورٹ محکمہ صحت، حکومت سندھ اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو متعلقہ قواعد و ضوابط کے مطابق فوری قانونی کارروائی کے لیے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ خط میں مذید کہا گیا ہے کہ امیدواروں کے انٹرویوز کے انعقاد کے لیے کونسی مخصوص پالیسی یا رہنما اصولوں پر عمل کیا گیا تھا اور اگر آپ یہ واضح کر سکتے ہیں کہ اس عمل کے لیے کس مجاز اتھارٹی سے منظوری لی گئی ہے، اگر کوئی ہے تو براہ کرم متعلقہ دستاویزات یا ثبوت فراہم کریں۔ جو منظوری کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ پی ایم اینڈ سی نے 03-02-2025 کو ایک پبلک نوٹس جاری کیا ہے جس میں پی ایم اینڈ ڈی سی نے ہدایت کی ہے کہ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں تمام داخلے ضابطہ 2023 کے مطابق سختی سے کیے جائیں اور میرٹ لسٹ کے مطابق سختی سے منعقد کیے جائیں متعلقہ داخلہ یونیورسٹیوں کے ذریعہ منتقل کیا جاتا ہے۔ خط میں مزید کہا گیاہے کہ قانون اور اس کے تحت بنائے گئے ضوابط کے تحت تجویز کردہ عمل سے کسی بھی انحراف کو سراسر خلاف ورزی سمجھا جائے گا اور اس کے نتیجے میں ضروری تادیبی کارروائی ہو سکتی ہے۔