• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امیر ترین طبقہ لگژری برانڈز سے دور ہونے لگا

کراچی(رفیق مانگٹ)دنیا کا امیر ترین طبقہ لگژری برانڈز سے دور ہونے لگا،امیر افراد نے اسٹیٹس کا نیا معیار صحت اور خوبصورتی کو بنا لیا،پانچ کروڑ صارفین نے لگژری مارکیٹ چھوڑ دی، دولت مند افراد خود کو سوشل میڈیا سے دور رکھ رہے ہیں،امیر افراد انٹرنیٹ پر بہترین ریستوران اور فیشن برانڈز تلاش نہیں کرتے،مہنگے برانڈز کے بجائے اب امیر افراد منفرد لباس اور ذاتی شناخت کو ترجیح دے رہے ہیں،متوسط طبقے کی بڑھتی رسائی، لگژری برانڈز کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔

امریکی جریدے کے مطابق امیر ترین افراد اپنی دولت کی نمائش کے نئے طریقے اپنا رہے ہیں، جو خریدے نہیں جا سکتے۔ اس رجحان نے ڈائر، ورساچی، اور بر بری جیسے لگژری برانڈز کو شدید نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ روایتی مہنگی اشیاء کی کشش کم ہوتی جا رہی ہے۔

سستے متبادل ، وزن کم کرنے والی دوائیں، اور کاسمیٹک پروسیجرز عام لوگوں کی پہنچ میں آ چکے ہیں، جس کی وجہ سے دولت کی روایتی علامتوں کی اہمیت ختم ہو رہی ہے۔کبھی ہرمیز برکن بیگ امیری کی سب سے بڑی پہچان سمجھا جاتا تھا، جسے حاصل کرنے کے لیے برسوں کا انتظار اور ہزاروں ڈالرز درکار ہوتے تھے۔ 

لیکن جب والمارٹ نے اسی ڈیزائن کا بیگ 70لاکھ روپے( 25,000ڈالر) کے بجائے صرف22ہزار روپے( 80 ڈالر )میں متعارف کرایا، تو لگژری برانڈز کی انفرادیت ختم ہونے لگی۔ٹک ٹاک پر فیشن کے شوقین افراد نے اس سستے متبادل کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور کہا کہ اب وہ بھی ایک ایسا بیگ رکھ سکتے ہیں جو اب تک صرف 1فی صد امیر طبقے کے لیے مخصوص تھا۔ 

سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے مہنگے برانڈز کی اجارہ داری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لگژری فیشن ہر کسی کا حق ہے۔یہ رجحان صرف ہینڈ بیگز تک محدود نہیں رہا۔ 

نقل شدہ لگژری مصنوعات، جیسے خصوصی جورڈن اسنیکرز، مہنگے ہینڈ بیگز، اور اعلیٰ درجے کی بیوٹی پراڈکٹس مارکیٹ میں سستے داموں دستیاب ہو چکی ہیں۔ اسی طرح، وزن کم کرنے والی دوائیں اور سستے کاسمیٹک پروسیجرز بھی عام افراد کی پہنچ میں آ گئے ہیں، جس کی وجہ سے خوبصورتی اور فٹنس بھی دولت کی واحد علامت نہیں رہی۔اب انتہائی امیر افراد اپنے اسٹیٹس کا اظہار مہنگی اشیاء کے بجائے منفرد طرزِ زندگی سے کر رہے ہیں۔ حقیقی دولت وہ ہے جو وقت خرید سکے،یہ نیا اصول بنتا جا رہا ہے۔ 

مشہور برانڈ اسٹریٹیجسٹ یوجین ہیلی کے مطابق، "ہمیشہ آن لائن نہ رہنا" نیا اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔متوسط طبقے کے افراد ملازمتیں کر رہے ہیں، امیر طبقہ گالف، پولو، یا یوگا جیسے مشاغل کو اپنی دولت کی علامت بنا رہا ہے۔ 

کولمبیا بزنس اسکول کی پروفیسر سلویہ بیلزہ کے مطابق، امیر افراد اپنی جسمانی و ذہنی بہتری پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں، جو ان کی اعلیٰ سماجی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔بر بری اور لوئی وٹون جیسے برانڈز اس رجحان کو دیکھتے ہوئے اپنے کسٹمرز کے لیے ذاتی نوعیت کے مونوگرام ڈیزائن متعارف کر رہے ہیں۔ماضی میں لگژری برانڈز صرف امیروں کے لیے مخصوص تھے، لیکن سستے متبادل اور نقل شدہ مصنوعات نے اب یہ دیوار گرا دی ہے۔ 

فاسٹ فیشن برانڈز نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھایا، اور وہ جلدی اور سستے داموں لگژری انداز کی نقل مارکیٹ میں لانے لگے۔جب متوسط طبقہ لگژری طرزِ زندگی اپنانے لگا تو امیر افراد نے اسٹیٹس کا نیا معیار صحت اور خوبصورتی کو بنا لیا۔ 

مہنگے فٹنس کلب، آرگینک خوراک، اور اینٹی ایجنگ پروسیجرز اب نئی دولت کی پہچان بن چکے ہیں۔ تاہم، جیسے ہی وزن کم کرنے والی دوائیں سستی اور زیادہ دستیاب ہوئیں، یہ رجحان بھی سب کے لیے قابلِ رسائی ہو گیا۔

بینی اینڈ کمپنی کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2022 سے 2024 کے درمیان پانچ کروڑ صارفین نے لگژری مارکیٹ چھوڑ دی، خاص طور پر چین میں۔ 

مہنگے برانڈز جیسے ڈائر، ایسٹی لاؤڈر، لوئی وٹون، اور بر بری کو شدید نقصان پہنچا، کیونکہ لوگ زیادہ قیمتوں کے باوجود معیاری یا منفرد مصنوعات نہ ملنے پر مایوس ہو چکے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ لگژری برانڈز کو اپنی حکمت عملی بدلنی ہو گی، ورنہ وہ مزید صارفین کھو دیں گے۔ اب امارت صرف مہنگے برانڈز نہیں بلکہ طرزِ زندگی سے جانی جائے گی۔

اہم خبریں سے مزید