السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
غیر مطبوعہ آپ بیتی
رؤف ظفر کا فیچر ’’مشتری ہوشیار باش…‘‘ بہت ہی اہم موضوع پر تھا۔ ٹیکنالوجی کی ترقی اور جدّت، فراڈز میں بھی نئے رنگ ڈھنگ لے آئی ہے۔ دو سال پہلے اور اُس کے بعد بھی کئی بار ایک معروف نیٹ ورک سے خاتون کی کال آئی کہ یہ آپ کا نمبر ہے۔ اور ہم آپ کو یہ سہولت دینا چاہتے ہیں۔ صحت انشورنس کروانے سے یہ یہ فائدے حاصل ہوں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مَیں بَس ’’جی، جی‘‘ ہی کرتا رہا، لیکن جب کال ختم ہوئی تو میسیج آیا کہ آپ کے ایک ہزار روپے کٹ گئے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ایسے فراڈیوں کو روکنے کے لیےسخت اقدامات نہیں کیے جاتے، تب ہی وہ نت نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمّد سکندر جانگھڑا نے دانتوں کی عمومی صحت سے متعلق معلومات فراہم کیں۔ درمیانی صفحات پر عورت کی نفسیات کے حوالے سے آپ کی تحریر بہت دل چسپ تھی، خصوصاً تحریر کا پہلا پیراگراف، جو آپ کے بقول آپ نے کہیں پڑھا، ہمیں تو لگا کہ آپ ہی کا لکھا ہوا تھا۔
ذوالفقار چیمہ کی آپ بیتی بھی تاحال بہت ہی دل چسپی اور عمیق نگاہی سے پڑھی جارہی ہے۔ مَیں سمجھ رہا تھا کہ یہ آپ بیتی کتابی صُورت میں شائع ہوچُکی، مگر چیمہ صاحب کی فیس بُک وال سےپتا چلاکہ یہ کتابی صورت میں شایع نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر شمیم نوید کی ’’مکافاتِ عمل‘‘ ہمارے سماج کا المیہ ہے اور محمد حارث بشیر کی ’’آخری خواہش‘‘ پڑھتے ہوئے بار بار امّی، ابو کی یاد آتی رہی۔ آنکھیں بھیگتی، دل چھلنی ہوتا رہا۔ بلاشبہ، والدین چلے جائیں، تو گھر یادوں کے قبرستان ہی بن جاتے ہیں۔ (رانا محمد شاہد،26 گلستان کالونی، بورے والا)
ج: آپ ایک طویل عرصے سے ’’سنڈے میگزین‘‘ سے وابستہ ہیں۔ حیرت ہے، اب تک آپ کویہی علم نہیں کہ ہمارے یہاں مطبوعہ تحریروں کی اشاعت ممنوع ہے۔ ہم صرف وہی نگارشات شایع کرتے ہیں، جو بطورِخاص ہمارے لیے لکھی گئی ہوں۔
کب تک چلے گی …؟
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی پر بہت عُمدہ مضمون تحریر کیا۔ سابق آئی جی، ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی کب تک مزید چلے گی۔ ہمیں اِن قسط وار سلسلوں سے سخت بوریت ہوتی ہے۔ خدارا! میگزین پر رحم کریں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ڈاکٹر شمیم نوید کی تحریر کردہ داستان اچھی تھی۔
اگلے جریدے کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئےدَور کے ساتھ موجود تھے۔ ’’ہمارے ادارے‘‘ سلسلے کے تحت تو منور راجپوت نے پی ٹی وی کی پوری داستان ہی بیان کر کے رکھ دی۔ خُود ہمارے گھرٹی وی 77-1976ء میں آیا اور وہ بھی سیکنڈ ہینڈ۔ ’’نئی کتابوں‘‘ میں اقبال خورشید نے تارڑ صاحب کی کتاب ’’باتاں ملاقاتاں‘‘ پر بہت خُوب تحریر لکھی اور ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں آپ کا ماہ نوراحمد کو جواب بڑا کرارا تھا، بےحد پسند آیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: قارئین کی ایک کثیر تعداد ’’خودنوشت‘‘ سلسلے کی بڑی مداح ہے۔ بیش تر افراد تو آئندہ بھی ایسے سلسلے جاری رکھنے کی استدعا کر رہے ہیں۔ بہرکیف، بطور مستقل قاری، آپ کی رائے بھی ہمارے لیے مقدّم ہے۔
دل سے قدردان
’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اِس قدر باقاعدگی سے جگہ دینے کا بہت بہت شکریہ۔ مَیں جانتا ہوں کہ میری تحریر کو قابلِ اشاعت بنانا آپ ہی کی کرم نوازی ہے، مگر مَیں میگزین کا دل سے قدر دان ہوں۔ اور ہر ہفتے پوری دل جمعی سے اِس کا مطالعہ کرتا ہوں۔ (شری مان مُرلی چندگھوکلیہ، پرانا صدربازار، ضلع شکارپور)
ج: جی… ہمیں بھی آپ کی قدردانی کی بہت قدر ہے۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
’’ویسے آپ کو اپنا اصل نام بھی لکھنا چاہیے تھا۔‘‘ چلو، چُھٹی ہوئی۔ ؎ پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے… کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔ کون بےعقل ہوگا، جو اپنی تخلیق پر اپنا نام نہ لکھے گا۔ یوں بھی ہم ’’سنڈے میگزین‘‘ کے برسوں، بلکہ صدیوں پرانے شناسا ہیں۔
پھر ہماری تحریروں پر کسی ’’خاص شخصیت‘‘ نے سَنسر لگا دیا۔ اِسی میگزین میں ہماری کئی غزلیں، نظمیں شایع ہوئیں اور دو افسانے بھی۔ ’’نامۂ غالبِ ثانی ‘‘ کے عنوان سے ہمارے تصنیف کردہ مختلف لوگوں اور اداروں کو لکھے خطوط کے مجموعے سے یہ ایک خط تھا، جو ہم نے آپ کو ارسال کیا اور اِس یقین کے ساتھ کہ آپ کو پسند آئے گا۔ ویسے آپ کے نام اور بھی کئی خطوط ہمارے پاس موجود ہیں، جو بوجوہ ارسال نہ کرسکے۔
آپ کے ہاں ’’نامۂ غالب‘‘ کے اوپر ’’جمیل ادیب سید‘‘ لکھا تھا، جو شاید آپ کی نظروں سے اوجھل رہا اور اب ہم آپ پر ’’مقدمہ‘‘ تو کرنے سے رہے کہ بذاتِ خود ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات پر آپ کی تحریریں ہمیں کتنی پسند ہیں، اظہار بھی مشکل ہے۔ ویسے یہ ہمارا قلمی نام ہے، جو صرف کراچی ہی نہیں، بھارت کے مشہور ادبی سلسلے ’’ریختہ‘‘ پر بھی بحمدللہ موجود ہے۔ (حقیر، فقیر، پُرتقصیر جمیل ادیب سید، اصل اور پورا نام سیّد جمیل احمد زیدی)
ج: وضاحتی خط کا شکریہ۔ چوں کہ خط کے آخر میں آپ نے اپنا نامِ نامی، اسمِ گرامی ’’مرزا غالب‘‘ ہی لکھ رکھا تھا، تو ہم نے کچھ زیادہ تلاش بسیار کا تردّد بھی نہیں کیا۔ چلیں، ہمارے ساتھ ساتھ قارئین کا تجسّس بھی ختم ہوا۔ ویسے وضاحت نہ ہی کرتے، تو اچھا تھا کہ اُس تحریر سے جو بھرم، تاثر قائم ہوا تھا، وہ اِس تاثر سے کہیں بہتر ہی تھا۔
پرانا وقت اچھا تھا
کیا زمانہ تھا، جب ہفتہ وار چھٹی جمعے کو ہوتی تھی، تو ’’ڈائجسٹ‘‘ اور ’’بچّوں کا جنگ‘‘ چَھپا کرتے تھے۔ ’’جنگ ڈائجسٹ‘‘ کا مخصوص بلیک اینڈ وائٹ فارمیٹ ہوا کرتا تھا۔ ’’تین مرد تین کہانیاں‘‘ قارئین میں بےحد مقبول سلسلہ تھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی روحانی علاج تجویز کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بچّوں کے جنگ کے پچھلے صفحے پر ’’ہمہ رنگ‘‘ چھپا کرتا تھا، جس پر دنیا بھر کے دل چسپ واقعات باتصویر پیش کیے جاتے تھے۔
جیسا کہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل، جو صرف کُتوں کی رہائش کے لیے مخصوص ہے۔ پاکستان کی 1996ء کے ورلڈکپ میں شکست پر ایک شخص نے احتجاجاً اپنے چاروں بچّوں کو گنجا کردیا وغیرہ کافی مقبول ہوئے اور اگلے کئی دن تک اسکولز، کالجز اور دفاتر میں اِن پر تبصرہ ہوتا رہا۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ پرانا وقت ہی اچھا تھا، جب بچّوں کا جنگ، جنگ ڈائجسٹ اور ہمہ رنگ چھپا کرتے تھے۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید ٓاباد، کراچی)
ج: جی بالکل۔ پرانا وقت بہت اچھا تھا۔ جب ’’آپ کا صفحہ‘‘ جیسا یہ نامعقول سلسلہ شروع ہی نہیں ہوا تھا۔
نگاہیں ’’جنگ‘‘ اخبار پر جَمیں
بخدا میں نے بےشمار اخبارات کا مطالعہ کیا، لیکن جب میری نگاہیں جنگ اخبار پر جَمیں اور مَیں نےخرید کر پڑھا، اور پھر ’’سنڈے میگزین‘‘ کا پوری دل جمعی، تن دہی کے ساتھ مطالعہ کیا، تو آپ مانیں، نہ مانیں، ایسا لگا، جیسے ساری کائنات اِس میں سمٹ گئی ہو۔ آج پہلی بار جنگ اخبار کی محفل میں شرکت کی جرات کر رہا ہوں۔ اُمید ہے، تھوڑی سی جگہ ضرور عنایت فرمائیں گی اور ساتھ ہی اپنی ایک غزل بھی پیش کررہاہوں۔ (عبدالغنی بلوچ، رستم ذکری گوٹھ)
ج: جس اخبار کی اشاعت کو پون صدی کا عرصہ گزر گیا، اُس پر آپ کی نگاہیں اب آکے جمی ہیں…؟؟ خدارا! آپ ابھی مزید تن دہی اور دل جمعی کے ساتھ مختلف اخبارات کا مطالعہ جاری ہی رکھیں۔ اور آئندہ کبھی بھول کر بھی شعرو شاعری کی تو کوشش بھی نہ کیجیے گا کہ آپ کا کلام پڑھ کے تو کئی باقاعدہ شاعروں کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ایک ہلکا سا ہارٹ اٹیک تو ہمیں بھی آہی گیا۔
جلی کٹی سنادیتی ہیں!!
’’سنڈے میگزین‘‘ میرے سامنے ہے۔ دلہن اور عروسی پہناووں سے متعلق آپ کی تحریر کا جواب نہیں۔ جگر مراد آبادی نے ایک ادبی سمینار میں ایک مُسکراتی، ساڑی میں ملبوس خاتون سے کہا۔ ’’بیٹا بُرا نہ ماننا‘‘ اور پھر یہ شعر سُنا ڈالا ؎ شباب رنگیں، جمال رنگیں، وہ سر سے پا تک تمام رنگیں… تمام رنگیں بنے ہوئے ہیں، تمام رنگیں بنا رہے ہیں۔ تو بس، یہ رائٹ اَپ بھی پوری بزم رنگین کر گیا۔
جریدے کے بیش تر قارئین اپنے خطوط کے جوابات کا شدت سےانتظارکرتے ہیں، مگر آپ ہیں کہ اکثر جلی کٹی سُنا دیتی ہیں۔ پھر بھی لوگ بُرا نہیں مناتے۔ ویسے کسی کے لیے مُسکرا دینا بھی صدقۂ جاریہ ہے۔ ہاں، میاں بیوی کی داستان پڑھ کر بہت مزہ آیا، جب کہ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کا صفحہ بھی لائقِ مطالعہ تھا۔ (سیّد شاہ عالم زمرّد اکبرآبادی، روال پنڈی)
ج: محترم ! جب لوگ اپنی عُمر، رتبے کا خیال نہ کریں، تو پھر جلی کٹی ہی سُننے کو ملیں گی۔ خُود آپ کی عُمرغالباً 80 سے متجاوز ہے، لیکن کئی جملے، اشعار اس قدر سطحی لکھتےہیں کہ ایڈٹ نہ کیے جائیں، تو کئی فتوے صادر ہوجائیں۔ لیکن ہمیں چوں کہ ہر لکھاری کی اصل حقیقت اور ذہنیت سےپوری آگاہی ہوتی ہے( کہ اصل مسوّدہ سامنے ہوتا ہے) تو سمجھیں، سو فی صد برحق ہی جلی کٹی سُنائی جاتی ہیں کہ ’’حق بحقدار رسید‘‘۔
لائقِ تحسین مضمون
ٹائٹل حسبِ معمول خُوب صورت، دل کش رنگوں سے مزیّن تھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کے لائقِ تحسین مضمون کے کیا کہنے۔ مشرقِ وسطیٰ سے متعلق ان کے خیالات پڑھنے کے قابل تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ معاشی مسائل نے اسرائیل اور ایران کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور مستقل امن کے لیے فلسطینی تنازعے کا حل ضروری ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں دو مضامین تھے۔ ایک عالمی یومِ طلبہ اور دوسرا پاکستان میں ماحولیاتی تحفّظ کی افادیت پر۔
دونوں ہی خُوب تھے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر مظیر احمد کی تحریر بھی بہت معلوماتی تھی۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم اور اقصیٰ پرویز کی رپورٹس بھی اچھی تھیں۔ ’’خود نوشت‘‘ میں ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، اُن کی اپنی زبانی بہت ہی دل چسپ انداز سے آگے بڑھ رہی ہے اور’’انٹرویو‘‘ میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سیدال خان ناصر سے بات چیت ٹھیک لگی۔ اختر سعیدی بھی نئی کتابوں پر اپنے تبصروں سے نواز رہے تھے اور ’’متفرق‘‘ میں ایرانی فلموں سے متعلق ڈاکٹر ناظر محمود کا مضمون عُمدہ تھا۔ (صدیق فنکار، کلمہ چوک، دھمیال روڈ، عسکری اسٹریٹ، جھاورہ کینٹ، راول پنڈی)
فی امان اللہ
بالآخر سردی نے گرمی کے اُس ’’دھرنے‘‘ کو ختم کرتے ہوئے، جس نے عرصۂ دراز(لگ بھگ 7 ماہ ) سے شہر پر قبضہ کررکھا تھا، یکم دسمبر سے اپنے قدم جما ہی لیے۔ یوں تو مُلک کے دیگر شہروں میں سردی نے پہلے ہی قدم رنجہ فرما لیےتھے، لیکن ہم ذکر اپنے شہر کراچی کا کر رہے ہیں۔
یوں بھی زیادہ دھرنے اِسی شہرمیں ہوتے ہی ہیں۔ کیا کہیں، ہمارے شہر کی ہر بات ہی نرالی ہے۔ خیر، سردی کے آغاز ہی سے دبے ہوئے لحاف، کمبل باہر نکل آئے۔ ساتھ ہی گرم کپڑوں کی دکانوں، لنڈا بازار کی رونق بھی لوٹ آئی۔ تین سے پانچ سال تک کی عُمر کے بچّوں کو خوب لپیٹ لپاٹ کر باہر بھیجا جارہا ہے۔
بڑے بچّے سرما کی چُھٹیوں کے سبب خُوب خوش باش ہیں۔ بہرحال، جہاں ایک طرف دسمبر کی ویرانی، خامشی اور سنّاٹے نے سراُٹھایا، وہیں ہمارے میگزین (سنڈے میگزین) میں ایک عجب قسم کی تازگی بھی دیکھنے میں آئی۔ اتفاق سے ماہِ دسمبر کی ابتدا ہی سنڈے میگزین سے ہوئی۔
سرورق پر لکھے ایک خُوب صُورت مصرعے ؎ جس طرح اَدھ کُھلے گھونگھٹ میں دلہن، کیا کہنا… پڑھ کر بےچینی بڑھ گئی، مجبوراً سب سےپہلے درمیانی صفحات ہی کی طرف جست لگائی کہ اِتنا اچھا مصرع کسی پری چہرہ دلہن ہی کے لیے لکھا گیا ہوگا۔
ساتھ ہی داغ دہلوی کا ایک شعر بھی یاد آگیا؎ خُوب پردہ ہے، چلمن سے لگے بیٹھے ہیں… صاف چُھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں۔ لڑکی، دلہن بننے کے بعد بیوی بن جاتی ہے اور پھر اُس کے بعد شروع ہونے والی کہانی ایسی ہی ہوتی ہے۔ ’’اُف! یہ میاں بیوی …‘‘۔ منور راجپوت نے اپنی حقیقی اور غالباً تجرباتی تحریر سے مزاح کا خُوب رنگ جمایا۔ ویسے کئی قارئین اور لکھاریوں نے شور مچا دینا ہے کہ یہ تو ہمارے گھر کی کہانی، کسی نے اخبار والوں کو سُنا دی۔
دوسری طرف رؤف ظفر نے اس حقیقت سے آشنا کیا اور خُوب کیا کہ اب اسموگ کم ازکم پاکستان کا تو پانچواں موسم بن چُکا ہے۔ ہم ہمیشہ اللہ کا شُکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے ہمارے مُلک کو دیگر نعمتوں کے ساتھ چاروں موسم عطا کر رکھے ہیں۔ تو اب اس نئے موسم (اسموگ) کو بھی اُن میں شامل کرلیں۔ ’’متفرق‘‘ کی چاروں ہی تحریریں انتہائی فکر انگیز، سبق آموز تھیں، تو ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی کمی کسی حد تک پوری ہوئی۔
’’ڈائجسٹ‘‘ کے افسانوں، اسمِ اعظم اور سُکھاں کا بھی جواب نہ تھا۔ دونوں ہی لکھاری خواتین خاصی منجھی ہوئی معلوم ہوئیں۔ آخر میں اس دُعا کے ساتھ اجازت کہ جس طرح آپ لوگوں نے 2024ء میں افراد کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے اَن گنت دل چسپ معلوماتی اور بےمثال نگارشات ہماری نذر کیں۔ سال2025ء کا سورج بھی سارا سال ہمارے 16 صفحات کے میگزین پر اپنی جگ مگ برقرار رکھے، آمین۔ (چاچا چھکن، گلشنِ اقبال، کراچی)
ج: لگتا ہے، اب’’اسٹائل‘‘ بزم کے ساتھ ایک تنبیہی نوٹ بھی لگانا پڑے گا کہ ’’مصرعوں پر جذباتی ہوتےہوئے اپنی عُمرکا خیال بھی ضرور رکھیں کہ بے اختیار چھلانگیں لگاتے ہوئے کوئی جوڑ کھسک گیا، تو ادارہ قطعاً ذمّےدار نہ ہوگا۔‘‘
* ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر آپ نےاپنے قلم سے کیا قیمتی موتی بکھیر رکھے تھے۔واہ!البتہ ایک ماڈل ویسٹرن ڈریسنگ میں بالکل اچھی نہ لگی۔ عُمر خیام کی پہلی قسط شان دار تھی،مگرچاند کے ایک گڑھے کو اُن کے نام سے موسوم کرنا کچھ عجیب سا لگا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مختلف ذائقوں کی آئس کریمز سجی ملیں۔ مَیں نے بھی سوچا کہ بازاری آئس کریم سے بہترہے کہ گھر ہی میں قدرتی اجزاء سے تیار کرکے دیکھوں، مگر یہاں تو چیکو اور فالسے ملتے ہی نہیں۔ اب تواُن کے ذائقے بھی بھول چُکی۔
گرمیوں میں پاکستانی آم بھی بہت یاد آتے ہیں۔ شہزادہ بشیر، طلعت عمران کو خاتون سمجھ بیٹھے،پڑھ کے بہت ہنسی آئی۔ رونق افروز کا آپ کی تن خواہ پوچھنا بالکل اچھا نہیں لگا۔ اوراپنی ای میل پر نظرپڑی، تودل خوشی سےلب ریز ہوگیا۔ ویسے میری زندگی بہت پُرسکون ہے، ماشااللہ کسی چیز کی کمی نہیں۔ ہاں، کبھی بیٹھے بیٹھے ناسٹیلجیا ہونے لگتا ہے۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)
ج: کبھی کبھار ناسٹیلجیا ہونا بھی ہرگز کوئی بُری بات نہیں بلکہ اِس طرح تو اپنے زندہ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
* سب سے پہلے تو بندی کا دل کی گہرائیوں سےسلام پیش ہے۔ اللہ جانتا ہے، ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں اپنی کہانی ’’لاکٹ‘‘ دیکھنے کے بعد جو خوشی ملی، بیان سے باہر ہے اور پھر عزیز و اقارب کی پذیرائی بھی۔
پھر وقت نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ مئی سے اکتوبر تک سوچتی ہی رہ گئی کہ پیارے میگزین کے لیے کچھ لکھوں، مگر ہر بارمصروفیات آڑے آتی رہیں۔ اوراب آج یہ ای میل کر ہی ڈالی ہے۔ (ثناء توفیق خان، ماڈل کالونی، ملیر، کراچی)
ج: بےحد شکریہ۔ بے شک، واقعے کی اشاعت پرآپ کی خوشی دیدنی ہوگی، مگر ہم تو اب تک لوگوں کی تنقید کی زَد میں ہیں کہ وہ بھی بھلا کوئی واقعہ تھا، جوشایع کیا گیا۔ ہم تو نوآموزوں کی حوصلہ افزائی کریں، تو بھی بُرے، نہ کریں تو بھی بُرے۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk