• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیگر صوبوں کے اسلحہ لائسنس، آرمز ڈیلرز کی سنگین بے قاعدگیوں کا انکشاف

کراچی( ثاقب صغیر ) کراچی میں اسلحے کی ترسیل اور غیر قانونی اسلحے کی موجودگی کے حوالے سے سی ٹی ڈی کی تحقیق میں دوسرے صوبوں سے بننے والے اسلحہ لائسنس اور چند آرمز ڈیلرز کی جانب سے سنگین بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

سندھ میں کرمنل ریکارڈ کے حامل افراد ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان سے رقم کے عوض لائسنس حاصل کر لیتے ہیں ، دوسرے صوبوں سے بننے والے زیادہ تر اسلحہ لائسنس کی ضلع کورنگی سےتصدیق کیے جانے کا انکشاف ،ڈی سی آفس کی تردید، آرمز شاپس پر مینویل بک کا غلط استعمال، اسمگل شدہ ٹیمپراسلحہ ایجنٹوں ،ناقابل شناخت شناختی کارڈ ، پرانے لائسنسوں کے ذریعے فروخت،بین الصوبائی بارڈرز پر سرچ اور اسکین نہ ہونے کے باعث دیگر صوبوں سے غیرقانونی اسلحہ سندھ اور کراچی میں باآسانی داخل۔سندھ میں اسلحہ لائسنس دو طریقے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ایک صوبے کے اندر محکمہ داخلہ سندھ کی اجازت سے جبکہ دوسرا دیگر صوبوں سے لیے گئے لائسنس کو ڈی سی دفاتر اور محکمہ داخلہ میں رجسٹر کروا کر۔سندھ آرمز ایکٹ اور سندھ آرمز رول کے مطابق کوئی بھی شخص جس کی عمر 25 برس سے کم ہو وہ سندھ میں لائسنس حاصل کرنے کا اہل نہیں ہے۔

ایسا شخص جو سندھ کا رہائشی نہ ہو، کسی کلعدم تنظیم کا ممبر ہو یا اس پر شبہ ہو، ذہنی اور نفسیاتی طور پر معذور /کمزور ہو لائسنس حاصل نہیں کر سکتا جبکہ وہ شخص جسے کم از کم 6 ماہ کی سزا ہوئی ہے سزا پوری ہونے کے بعد پانچ سال تک لائسنس حاصل کرنے کا اہل نہیں ہے۔

سی ٹی دی کی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ 25 سال سے کم عمر افراد اور سندھ میں کرمنل ریکارڈ رکھنے والے افراد ایجنٹوں کے ذریعے دیگر صوبوں خصوصاً بلوچستان کے مختلف اضلاع سے لائسنس حاصل کر لیتے ہیں۔چونکہ بلوچستان میں اسلحہ لائسنس حاصل کرنے کی عمر 18 برس ہے اس لیے سندھ کے رہائشی زیادہ تر وہاں کے مختلف اضلاع سے ایجنٹوں کے ذریعے لائسنس بنوا رہے ہیں۔کوئی بھی صوبائی حکومت صرف اس شہری کو لائسنس جاری کر سکتی ہے جس کا مستقل یا عارضی پتا اس صوبے کا ہو لیکن ایجنٹ مافیا کے کارندے بلوچستان کے جعلی ایڈریس دکھا کر دیگر صوبوں کے افراد کا لائسنس بنوا کر دے رہے ہیں۔

سی ٹی ڈی کی تحقیق میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ بلوچستان سے لائسنس بنوانے والے 70 سے 80 فیصد لوگ کبھی بلوچستان گئے ہی نہیں اور گھر بیٹھے ایجنٹ مافیا نے پیسوں کے عوض انھیں لائسنس بنوا کر دئیے ہیں۔

سی ٹی ڈی کی تحقیق کے مطابق دیگر صوبوں خصوصاً بلوچستان سے بنائے جانے والے زیادہ تر اسلحہ لائسنس جعلی ہیں جو ایجنٹوں کے ذریعے 25 سے 30 ہزار روپے دے کر بنوائے گئے ہیں۔ایسے افراد کے لائسنس بھی بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے جن کی عمر لائسنس جاری کرنے کی تاریخ تک 18 برس بھی نہیں تھی کیونکہ بلوچستان میں اسلحہ لائسنس پر پابندی عائد تھی اسلیے مختلف اضلاع نے سابقہ تاریخ ( back date ) پر یہ اسلحہ لائسنس جاری کیے اور ایسے افراد کو بھی لائسنس جاری کر دئیے جو عمر کم ہونے کے باعث اسلحہ لائسنس حاصل کرنے کے اہل ہی نہیں تھے۔

قانون کے مطابق سندھ میں دیگر صوبوں سے بنانے جانے والے اسلحے کو کیری کرنے ( ساتھ لے کر چلنے ) کے لیے مقامی ضلعے کی تصدیق ہونا لازمی ہے جس کے بعد ہی شہری مذکورہ اسلحہ ساتھ لے کر چل سکتا ہے۔ ڈی سی دفاتر دوسرے صوبوں سے بنائے گئے اسلحہ لائسنس کو وہاں کی اتھارٹی سے تصدیق کے بعد شہری کو اسٹمپ کے ذریعے اجازت دیتے ہیں کہ وہ شہر میں اسلحہ کیری کر سکتا ہے تاہم ڈی سی دفاتر کے باہر موجود ایجنٹ مافیا اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔

سی ٹی ڈی کی انکوائری میں دوسرے صوبوں سے بننے والے زیادہ تر اسلحہ لائسنس کی تصدیق ضلع کورنگی سے کیے جانے کا انکشاف ہوا ۔جب اس حوالے سے پولیس کی جانب سے ڈی سی کورنگی آفس رابطہ کیا گیا تو پولیس کو بتایا گیا کہ بلوچستان میں بننے والے اسلحہ لائسنس کی تصدیق کے لیے ڈی سی آفس کورنگی کے دفتر سے کوئی لیٹر نہیں لکھا گیا ہے بعد ازاں ڈی سی آفس کورنگی کی جانب سے ایک سرکلر بھی جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا دیگر صوبوں کے اسلحہ لائسنس کی تصدیق پر ضلع کورنگی میں پہلے ہی پابندی ہے اسلیے کسی بھی ایسی جعلی رجسٹریشن کا ذمہ دار ڈی سی آفس نہیں ہے ۔تاہم اس سرکلر کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہر میں ڈی سی کورنگی آفس کی جانب سے دیگر صوبوں کے بنائے جانے والے اسلحہ لائسنس کی اسٹمپ کے ساتھ جو لائسنس شہریوں کے پاس موجود ہیں انکی قانون حیثیت کیا ہے؟۔

قانون کے مطابق دوسرے صوبے سے لائسنس حاصل کرنے کے 7 روز کے اندر شہری مقامی تھانے کو آگاہ کرنے کا پابند ہے ۔اگر بلوچستان یا دیگر صوبے کا لائسنس کسی شہری کے پاس دوران چیکنگ پولیس کو دکھایا جائے اور مقامی تھانے میں اس کی انٹری نہ ہو تو ایس ایچ او کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مذکورہ اسلحے کو ساتھ لے کر چلنے کی اجازت شہری سے واپس لے لے ۔ 

سی ٹی ڈی کے مطابق غیر قانونی اسلحہ اور جعلی لائسنس کی مانیٹرنگ باڈی ہونے کی حیثیت سے پولیس کے پاس نہ تو اس حوالے سے کسی قسم کے ڈیٹا بیس تک رسائی ہے اور نہ ہی اسلحہ لائسنس کی اصلیت معلوم کرنی کی کوئی تربیت ہے جس کی وجہ سے جعلی لائسنسوں کا دھندہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

پولیس کے مطابق صوبے کے لائسنس ہولڈر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلحہ خریدنے کے 15 روز کے اندر مقامی تھانے میں اس کی اطلاع دے تاہم اس حوالے سے بھی کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے جبکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں لائسنس رکھنے والے شخص کا لائسنس منسوخ بھی ہو سکتا ہے ۔سندھ آرمز ایکٹ کے مطابق آرمز ڈیلر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلحہ خریدنے اور فروخت کرنے والے شخص کا نادرا کے زریعے تھمب امپریشن ( انگھوٹھے کا نشان ) اور قومی شناختی کارڈ کی کاپی لے اور خریدے گئے اسلحے سے فائر ہونے والے دو گولیوں کے خول ایف ایس ایل ( فارسنک سائنس لیبارٹری )میں بھیجے۔ہر اسلحہ پر ایک نمبر کندہ ہوتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کے بنانے والے اور امپورٹر کو ٹریس کیا جاسکے تاہم سی ٹی ڈی کی تحقیق کے مطابق کچھ آرمز شاپس پر مینویل بک کا غلط استعمال کیا جاتا ہے اور وہ جعلی، اسمگل شدہ پنچ اسلحہ کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے فروخت کرتے ہیں ۔چند اسلحہ ڈیلرز اپنی مینویل بک کو ڈمی انٹریز کے ذریعے مینج کرتے ہیں اور پرانی اور ناقابل شناخت شناختی کارڈ کی نقل کے زریعے خرید و فروخت کرتے ہیں۔

سی ٹی ڈی کی تحقیق کے مطابق اسلحہ ڈیلر پرانے اسلحہ کے نمبر کو نئے اسمگل شدہ اسلحہ پر پنچ کر کے پرانی تاریخوں پر فروخت کر کے اپنا ریکارڈ ترتیب دیتے ہیں اور مینوئل ریکارڈ کا فائدہ اٹھا کر وہ جعلی خرید اور فروخت کی رسیدیں جاری کرتے ہیں۔

سی ٹی ڈی کے مطابق بیرون ملک بنا ہوا اسمگل شدہ اسلحہ کی کچھ دکانوں پر دستیاب ہے۔اسلحہ ڈیلر اسمگل شدہ اسلحہ اپنے ریکارڈ میں جعلی اور پرانے لائسنسوں کے ذریعے قانونی بنا کر فروخت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایف ایس ایل ڈیٹا بینک میں اس اسلحے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔سی ٹی ڈی کے مطابق دیگر صوبوں میں بننے والا اسلحہ باآسانی پبلک اور نجی ٹرانسپورٹ کے ذریعے صوبے میں آ رہا ہے۔

بین الصوبائی بارڈرز پر سرچ اور اسکین نہ ہونے کے باعث یہ اسلحہ سندھ اور کراچی میں آ رہا ہے۔کچھ اسلحہ ڈیلرز مالکان فرنٹ مین کے طور پر اپنے ایجنٹوں کا استعمال کر کے غیر قانونی اسلحہ کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ایجنٹ جعلی لائسنس بنوانے ، اسلحے کی اسمگلنگ ، جعلی رسیدیں بنانے، اسلحہ کا نمبر ٹیمپر کرنے ، غیر قانونی ایمونیشن اور غیر قانونی طور پر دیگر سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

سی ٹی ڈی کے مطابق متعلقہ ڈیپارٹمنٹس کے درمیان رابطوں کا فقدان ، مینویل ریکارڈذ، کرپشن ، بین الصوبائی بارڈرز پر مناسب سیکورٹی نہ ہونا، آن لائن اسلحے کی فروخت کے لیے میکانزم نہ ہونا، اسلحہ دکانوں پر انوینٹری کا مناسب میکانزم نہ ہونا اور عوامی میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی کے باعث یہ دھندہ جاری ہے۔

اہم خبریں سے مزید