تفہیم المسائل
علامہ نظام الدینؒ لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ اگر شرکاء میں سے کسی ایک وارث نے اپنے حصے کے بقدر مال پر صلح کرلی یا معاف کردیا، تو قصاص سے باقی ورثاء کا حق ساقط ہوگیا، مگر اُنہیں دِیت میں سے اُن کا حصہ ملے گا اور معاف کرنے والے کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوگا، (فتاویٰ عالمگیری، جلد6،ص:21)‘‘۔
قتلِ عمد کی سزا دنیا میں صرف قصاص ہے، البتہ اولیائے مقتول کے پاس دو اختیار ہیں: (۱) یہ کہ خالصاً لوجہ اللہ معاف کردیں (۲) دِیت لے کر معاف کردیں۔
آپ نے سوال میں لکھا ہے : ’’ ماں ہی گھر کی سربراہ ہے ‘‘، مسئلہ یہ ہے کہ ماں گھر کی سربراہ ہویا نہ ہو، شرعاً اُسے اپنے حق ِ وراثت کی حد تک اپنی بیٹیوں کے قاتل کو، خواہ وہ بیٹا ہو یا کوئی اور، معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے، البتہ باقی اولیائے مقتولات بھی چاہیں، تو معاف کرسکتے ہیں، ورنہ انہیں دِیت پر راضی ہونا ہوگا۔
شرعاً ماں کو بھی معاف کرنے کا حق حاصل ہے، جس سے قصاص ساقط ہوجائے گا۔ ماں اگر اپنی بیٹیوں کا خون معاف کردیتی ہے، تو قاتل سزا سے بچ جائے گا، قتلِ عمد میں قاتل کے ذمے کفارہ واجب نہیں ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)