وزیرِاعظم کے اسٹاف میں شامل ہوتے ہی مَیں نے پورے جوش و جذبے سے کام شروع کردیا۔ سنگین جرائم سےمتعلق معلومات کے لیے راول پنڈی، اسلام آباد سے چَھپنے والے اخبارات کے علاوہ علاقائی زبانوں کےاخبارات (سندھی زبان کے کاوش اور عبرت کی طرح کے) بھی منگوانے شروع کردیئے۔ جرائم کی خبروں کے ترجمے کے لیے ایک نوجوان ڈھونڈ لیا۔ نیز، پولیس کی اسپیشل برانچ اور دوسری ایجینسیوں سے بھی معلومات لینا شروع کردیں۔
مُلک میں کہیں بھی کوئی سنگین جرم سرزد ہوتا یا کسی نادار، بے سہارا شخص کے ساتھ ظلم یا کسی خاتون، بچّی کے ساتھ زیادتی کا کوئی واقعہ پیش آتا، تو فوری طور پر متعلقہ ضلعی اور ڈویژنل پولیس افسران سے رابطہ کرکے تفصیلات حاصل کرتا اور اُنہیں مجرموں کو گرفتار کرنے اور بروقت چالان عدالت میں پیش کرنےکی ہدایات دیتا۔ اور ساتھ متنبّہ کرتا کہ وزیرِاعظم بھی موقعے پر آ سکتے ہیں اور اگر آپ کی طرف سے کوتاہی برتی گئی تو آپ کےخلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ اور واقعی ایسا ہوتا بھی رہا۔ کئی بار توناقابلِ یقین واقعات رُونما ہوئے۔ جیسا کہ ایک بار سندھ کے صحافی دوستوں نے بتایا کہ اندرونِ سندھ، ایک غریب گھرانے کی بچّی کے ساتھ ایک بااثر وڈیرے کے منہ زور لڑکے نے زیادتی کی ہے اور مقامی پولیس اورانتظامیہ ملزم کےاثرورسوخ کے سبب بےبس ہے۔
بچّی کی ماں اپنی پَھٹی ہوئی چادر ہاتھوں میں لے کے، آسمان کی طرف منہ کرکے کائنات کے خالق و مالک سے انصاف کی التجا کررہی تھی۔ جیسا کہ بڑے بوڑھےکہتے ہیں کہ’’مظلوم کی دُعا آسمانوں کو چیر کر دربارِ الہٰی میں پہنچتی ہے۔‘‘ تو ایسا ہی ہوا۔ مظلوم کی پکارسُنی گئی، دربارِ الہٰی سے ہدایات جاری ہوگئیں اور انصاف کے کارندے حرکت میں آگئے۔ چوبیس گھنٹے سے پہلے مظلومہ کی کُٹیا کے اوپر آسمان پہ اُڑن کھٹولا (ہیلی کاپٹر) نظر آیا اور کُٹیا کے عین سامنے اُترا۔
شہنشاہِ اعظم نے اِس بار مظلوم کو انصاف دلانے کے لیے کسی فرشتے کی بجائے مُلک کے صاحبِ اقتدار وزیراعظم کو بھیج دیا، جس نے آکر اُس خستہ حال، میلی کچیلی کُٹیا میں ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بیٹھ کر مظلومہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور کوتاہی برتنے والے حکّام کو معطل کردیا گیا۔ وزیرِاعظم ابھی کُٹیا ہی میں تھے کہ اصل مجرم قانون کی زنجیروں میں جکڑا گیا، اور احکامات کے مطابق پندرہ روز میں ٹرائل مکمل ہوگیا۔ بااثر مجرم کو عبرت ناک سزا ملی اور مظلوم خاندان کو انصاف مل گیا۔
پہلےپہل مجھےاندازہ نہیں تھا کہ وزیراعظم میری رپورٹ کو کس حد تک سنجیدگی سے لیں گے اور اُس پر کس حد تک عمل درآمد کروائیں گے۔ مگر تعیّناتی کے صرف دو روز بعد رحیم یار خان کے(جہاں سے میں آیا تھا) دیہی علاقے کے ایک وقوعے سے متعلق مَیں نے تمام معلومات لکھ بھیجیں اور ساتھ سفارش کی کہ وزیرِاعظم کو موقعے پر جانا چاہیے تاکہ پورے جنوبی پنجاب کی پولیس اور انتظامیہ چوکس ہو جائے اور ظلم و زیادتی کے ایسے واقعات پر نہ صرف خُود حرکت میں آئے، مظلوموں کو انصاف بھی فراہم کرے اور مجھے بہت خوش گوار حیرت ہوئی، جب ملٹری سیکٹری نے بتایا کہ کل پرائم منسٹر، رحیم یار خان جائیں گے، لہٰذا آپ سارا پروگرام coordinate کرلیں۔ SOP یہ ہوتا تھا کہ مَیں اپنی تحریری رپورٹ وزیرِ اعظم کودے دیتا اوروہ اُسے پڑھ کر تقریباً90فی صد کیسز میں موقعے پر جانے کا پروگرام بنا لیتے۔
جہاز میں مجھے بلا کر مجھ سے تفصیلی بریفنگ لیتے اور آخر میں تجاویزلی جاتیں۔ اکثر مواقع پر پرائم منسٹر اُن سے اتفاق کرتے اور اُن سفارشات ہی کی روشنی میں کئی بار متعلقہ حکّام کے خلاف کارروائی ہوتی۔ کبھی اُن کی سرزنش ہوتی، تو کبھی اچھا کام کرنے پر شاباشی بھی ملتی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ضلعی اور ڈویژنل حکام خاصے متحرک ہو گئے۔
کوئی سنگین واقعہ پیش آنے کی صُورت میں میں ضلعے کے ایس ایس پی (آج کے ڈی پی او) کو فون کرتا، تو پتا چلتا کہ موقعے پر گئے ہوئے ہیں۔ ڈی سی کا پتا کرتا، تو معلوم ہوتا کہ وہ بھی جائے واردات پرروانہ ہوچُکے ہیں۔ وزیرِاعظم کا ہیلی کاپٹرانصاف کا استعارہ بن گیا۔ وہ فضاؤں میں نمودار ہوتا تو مظلوموں کو اُمید اور حوصلہ ملتا اور ظالموں، مجرموں اور اُن کے سرپرستوں اور سفارشیوں کے حوصلے ٹُوٹنے لگتے۔
اُن ہی دنوں شیخوپورہ میں پولیس کا ایک بہادر سب انسپکٹر ڈاکوئوں کا پیچھا کرتے ہوئے ان کی فائرنگ کی زد میں آکر شہید ہوگیا۔ اُس کی نوجوان بیوہ اور دو معصوم بچّوں کی تصویر اخبار میں چَھپی تو بہت دُکھ ہوا۔ مجھے آئی جی چوہدری سردار محمّد کافون آیا کہ ’’پرائم منسٹر سے بات کریں تاکہ حکومت کی طرف سے شہید سب انسپکٹر کی فیملی کی معقول مدد ہوسکے۔‘‘ واضح رہے، اُس وقت شہید کی فیملی کو صرف پچاس ہزار روپے ملتے تھے۔
مَیں نے واقعے کی تفصیل لکھی اورآخر میں یہ بھی لکھا کہ ایسے واقعات سے پوری پولیس فورس بد دل ہوتی ہے اور پھر یہ بھی ظلم و زیادتی کا ایک دل دوز واقعہ ہے۔ وزیرِاعظم مظلوموں کے ساتھ اظہارِ ہم دردی کے لیے جاتے ہیں،تو اگر اِس شہید سب انسپکٹر کے گھر بھی جائیں گے، اُس کے یتیم بچّوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہیں گے کہ ’’یہ بےسہارا نہیں، یہ میرے بچّے ہیں۔‘‘ تو پوری پولیس فورس کا حوصلہ بڑھے گا۔ رپورٹ پڑھتے ہی پرائم منسٹر نے مجھے بلالیا اور کہا کہ مَیں آپ کی رپورٹ سے سو فی صد متّفق ہوں۔ کل صُبح ہی ہم شیخوپورہ، شہید سب انسپکٹر کے گھر جائیں گے۔
مَیں چوں کہ جانتا تھا کہ مُلک کے چیف ایگزیکٹیو کی زبان سے کس طرح کے الفاظ نکلیں گے، تو پولیس فورس کی morale boosting ہوگی، لہٰذا ایک کاغذ پر کچھ talking points بھی لکھ کر دے دیئے، جن سے وزیرِاعظم ہمارا مدّعا سمجھ گئے اورانہوں نے موقعے پر پولیس کے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور ورثاء کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیےبڑی موثّر اور جان دار تقریر کی۔ دوسرے روز صُبح وزیرِاعظم کی شہید کے بچّےکےگود میں لیے تصاویر چَھپیں اور تقریر کی سُرخیاں بھی اُسی انداز میں شایع ہوئیں، جیسی ہم چاہتے تھے۔ پورے مُلک کی پولیس فورس کے حوصلے بلند ہوئے۔
مجھے بہت سے سینئر پولیس افسران کے فون آئے، جنہوں نے وزیرِاعظم کے اس اقدام کو بہت سراہا۔ آئی جی صاحب نےمجھے فون کیا اور کہا کہ’’ اگلے جمعے کو جب پرائم منسٹر لاہور آئیں، توآپ ائیرپورٹ سے سیدھے آئی جی آفس آجائیں اور چائے ہمارے ساتھ پئیں۔‘‘ چناں چہ جمعے کی سہ پہر مَیں آئی جی آفس پہنچ گیا، جہاں تمام ایڈیشنل آئی جی اور ڈی آئی جی صاحبان موجود تھے۔
آئی جی چوہدری سردار میری خدمات کی تعریف کرنے لگے، جس سے مجھے بڑی ندامت سی محسوس ہوئی اور ساتھ افسوس بھی ہوا کہ چوں کہ پولیس جیسے اہم ترین ادارے کی اقتدار کے مراکز، پرائم منسٹر آفس وغیرہ میں کوئی نمائندگی نہیں، اِس لیے ایک جونیئر افسر کی اس قدر عزّت افزائی ہو رہی ہے۔ بہت سے جمہوری ممالک، حتٰی کہ ہمارے ہم سایہ ممالک میں بھی ایسانہیں ہوتا۔ وہاں پرائم منسٹر اور چیف منسٹرز کے دفاتر میں پولیس کی بڑی معقول اور موثر نمائندگی ہوتی ہے۔
مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے وزیرِاعظم ذاتی طور پر مداخلت کرے، موقعے پرجائے یا متعلقہ حکّام کو ہدایات جاری کرے، اِس کی ہرگز ضرورت نہیں ہونی چاہیے اور یہ کوئی قابلِ رشک طریقۂ کارنہیں،مگرایک ایسے مُلک میں، جہاں حکّام کو اپنی ذمّےداری کا احساس نہ ہو اور ادارے بےعملی کا شکار ہوں، وہاں افراد اور اداروں کو اس غیرفعالیت (inertia) سے نکالنے کے لیے مُلک کے چیف ایگزیکیٹو کی ذاتی دل چسپی اور مداخلت بےحد مفید اور موثر ثابت ہوسکتی ہے اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔
ایک طرف پولیس اور انتظامیہ فعال اور متحّرک ہوگئی، تو دوسری طرف مقامی سیاست دان مجرموں کی مدد اور حمایت سے پیچھے ہٹ گئے، مگر اُنہیں بااثر مجرموں کی حمایت سے دست بردار کروانے کے لیے وزیرِاعظم کو اپنے کچھ ساتھیوں کی قربانی بھی دینا پڑی۔ کیوں کہ ایک دو جگہوں پر ایسا بھی ہوا کہ اُن کی اپنی پارٹی کا رکنِ اسمبلی یا تو خُود جُرم میں ملوّث یا پھر مجرموں کی پشت پناہی کرتا پایا گیا۔ مگر وہاں مجرموں کے ساتھ ساتھ اُن کی مدد کرنے والے رکنِ اسمبلی کے ہاتھ بھی قانون کی زنجیروں میں باندھ دیئے گئے۔
یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہےکہ سنگین جرائم کے خاتمے اورخواتین کی عزّت و عصمت کے تحفّظ کے لیے میاں نوازشریف نے بہت سے اقدامات سیاسی مفاد سےقطعاً بالاترہوکر اُٹھائے۔ نتیجتاً اُن کی پارٹی سے چند لوگ علیحدہ بھی ہوئے، مگر وہ خُود افتادگانِ خاک کے دِلوں میں اُترگئے۔ اندرونِ سندھ کے کئی شہروں کا احوال مجھے ابھی تک یاد ہے۔
پہلے پہل پنجابی وزیرِ اعظم، سندھیوں کے لیے اجنبی تھا اور اس کا استقبال صرف سرکاری اہل کار کیا کرتے تھے۔ عام آدمی اُن سے لاتعلق رہتا، مگر محض چھے ماہ بعد حیران کُن تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ ایک بار ہم جب سندھ کے ضلع، نواب شاہ کے قصبے لیاقت پور پہنچے، تو پورا شہر نواز شریف کو دیکھ کر جوش و مسرّت سے ہاتھ ہلا کر استقبال کررہا تھا۔ ایک روز وزیرِاعظم، پی ایم ہاؤس کے کوریڈور میں چلتے چلتے مجھ سے کسی واقعے کی تفصیل پوچھ رہے تھے۔
مَیں بتا چُکا تو رُک گئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے۔ ’’چیمہ صاحب! یہ کام، جو ہم مل کے کر رہے ہیں، یہ ہمارا فرض ہے اور اِس کے لیے ہم اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔‘‘ اُنہوں نے پورے خلوص سے یہ بات کی تھی، جس نے یقینی طور پر مجھے بےحد متاثر کیا۔ 1990ء سے 1993ء تک میاں نوازشریف کے خلوص کا یہی عالم تھا، مگر 1998ء کے بعد اُن کےجوش و جذبے میں بتدریج کمی آتی گئی۔ اُن کے پہلے tenureمیں، میرٹ اور انصاف کے ساتھ اُن کی وابستگی مجھے بہت متاثر کرتی تھی کہ اِس معاملے میں وہ سیاست سے یک سر بالاتر ہوکر بھی کئی فیصلے کرجاتے تھے۔
وہ جس جگہ کے بھی دورے پر جاتے، ہزاروں کا مجمع اکٹھا ہوجاتا۔ ہر شخص اُنھیں کوئی نہ کوئی درخواست، عرضی یا کاغذ پکڑانے کی کوشش کرتا۔ اسٹاف کوسختی سے ہدایت کی گئی تھی کہ سب درخواستیں نہ صرف اکٹھی کرنی ہیں، بلکہ اُن سے متعلق پرائم منسٹر کو بریف بھی کرنا ہے۔
نیز، ہر درخواست پر پی ایم سے ہدایات لے کر متعلقہ حکام تک پہنچانی ہیں۔ بیسیوں درخواستیں غریب خواتین و حضرات کی ہوتیں کہ ہمیں حج یا عُمرہ کروایا جائے۔ اور عموماً وزیرِاعظم اُن پر بھی عمل درآمد کرواتے۔
مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے تھے کہ ’’تم وزیرِاعظم کےساتھ کام کرتے ہو، تو میاں نواز شریف کی کون سی ایسی خوبیاں ہیں، جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں نواز رہا ہے؟‘‘ اس پر میرا جواب ہوتا تھا کہ ’’لگتا ہے، اُن کی دو باتیں اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں۔ والدین کی بے انتہا، بےریا خدمت اور غریب پروری۔‘‘ کہ اِن دونوں معاملات میں اُن کا اِخلاص اور جذبہ ہر چیز پر غالب آجاتا تھا۔
1993ء کے ماہِ رمضان کی بات ہے۔ ایک روز مَیں اسلام آباد سے اپنے گاؤں آیا ہوا تھا۔ والدہ صاحبہ نے اُس روز کے اخبار میں پڑھ لیا کہ نوازشریف صاحب کل عُمرےکی ادائی کے لیے سعودی عرب جا رہے ہیں۔ اُنہوں نےخبر پڑھ کر مجھ سے کہا کہ ’’وزیرِاعظم مُلک کی دُور دراز جگہوں پرتمہیں ساتھ لیے پِھرتا ہے۔ عُمرے پر ساتھ نہیں لےکر جارہا؟‘‘ مَیں نے نفی میں جواب دیا، مگر مجھے خُود بھی دل میں کھٹک سی محسوس ہونے لگی۔
اضطراب میں اضافہ ہوا تو مَیں نے پرائم منسٹر کے پی ایس او، رؤف چوہدری کو فون کیا کہ ’’مَیں نے کبھی کسی بیرونی دورے پر جانے کی خواہش نہیں کی، مگر میں عُمرے کے سفر میں پی ایم صاحب کے ساتھ جانا چاہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا ’’مَیں آپ کے جذبات پی ایم تک پہنچا دوں گا۔‘‘ شام تک مَیں اس بات کو تقریباً بھول چُکا تھا۔ افطار اور کھانے کے بعد مَیں والد صاحب اور والدہ صاحبہ سے اجازت لےکر واپس اسلام آباد جانے کے لیے گھر سے نکلا، توبیرونی برآمدے میں ہمارے ملازم نے روک لیا۔
مَیں نے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘ کہنے لگا۔ ’’وزیرآباد سے ایک تھانے دار آیا ہے، آپ سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘ مَیں گھر سے باہر آیا تو وزیرآباد سے آئے پولیس افسر نے بتایا کہ ’’سر! وزیرِاعظم ہاؤس سے آپ کے لیے پیغام ہے کہ آپ فوری طور پر اسلام آباد پہنچیں۔ کل صُبح آپ نے بھی وزیرِاعظم صاحب کے ساتھ سعودی عرب جانا ہے۔‘‘مَیں اُس کا شکریہ ادا کرکے گھر واپس آیا اور والدین کو خوش خبری سنائی۔ وہ بھی بہت خوش ہوئے۔
پھر مَیں نے مسجد جاکر شُکرانے کے دو نوافل ادا کیے اور اسلام آباد روانہ ہوگیا۔ اپنی رہائش گاہ پہنچ کرپرائم منسٹر ہاؤس فون کیا، تو کہا گیا کہ ’’صبح آٹھ بجے پاسپورٹ لےکر پی ایم ہاؤس کے پروٹوکول سیکشن میں پہنچ جائیں۔‘‘ مَیں وقت سے کچھ پہلے ہی پی ایم ہاؤس پہنچ گیا، پروٹوکول افسر غلام عباس مجھ سے پاسپورٹ لےکر مجھے ساتھ والے کمرے میں لے گئے اور الماری (جس میں درجنوں شیروانیاں لٹکی ہوئی تھیں) کھول کر کہنے لگے۔ ’’اِس میں سے اپنے سائزکی شیروانی منتخب کر لیں۔‘‘ مَیں نے اندازے سےایک شیروانی اتاری، جو مجھے فِٹ آگئی۔ مَیں نے وہیں پہن لی اور پوچھا کہ ’’اب اورب تائیں کیا کرنا ہے؟‘‘ پروٹوکول افسر نے کہا۔ ’’دس بجے تک ائیرپورٹ پہنچ جائیں۔
ساڑھے دس بجے تک وزیرِاعظم بھی پہنچ جائیں گے۔‘‘ ائیرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج پہنچا، تو دو تین وزراء اور پی ایم اسٹاف کے چند لوگ بھی نظر آگئے۔ وہیں کسی نے بتایا کہ افغانستان کی آزادی کے لیے روس کےخلاف برسرِپیکار تمام افغان گروپس کے درمیان اسلام آباد میں جو معاہدہ طے پایا ہے۔ اُس معاہدۂ اسلام آباد کی توثیق مکّہ مکرّمہ میں ہوگی۔ اِسی لیے شاہ فہد نے پاکستان کے وزیرِاعظم اور افغانستان کے صدر،وزیرِاعظم اورباقی لیڈرز کو بھی سعودی عرب مدعو کیا ہے، تو وہ سب بھی اِسی جہاز سے سعودی عرب جارہے ہیں۔ (جاری ہے)