ارضِ مقدّس کے سفر اور پھر ایسے تاریخی وفد کی ہم رکابی کےاحساس سے سرشار، مَیں جہاز کی جگہ خُود فضاؤں میں اُڑنے لگا۔ بہرحال، ہمارے پہنچنے کے کچھ دیر بعد وزیرِاعظم بھی افغان مہمانوں کے ساتھ پہنچ گئے۔ نوازشریف نے حسبِ معمول سب کے پاس جا کر مصافحہ کیا اور اُس کے بعد سب سے آگے جا کر اپنی نشست سنبھال لی۔
افغانستان کے معزّز مہمان بھی اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے، توجہاز کے پائلٹ کی آواز گونجی۔ ’’مَیں کیپٹن… اِس خصوصی پرواز پر اسلامی جمہوریۂ افغانستان کے صدر، برہان الدّین ربّانی، پاکستان کے وزیرِاعظم میاں محمّد نواز شریف،افغانستان کے وزیرِاعظم گلبدین حکمت یار اور دیگر مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔‘‘ دل سے دُعا نکلی کہ یاالہٰی! دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ برادرانہ تعلقات قائم رکھنا۔
چند گھنٹوں بعد جب ہم سعودی عرب کی فضامیں داخل ہوئے، تو کیپٹن نے بتایا کہ ہم پہلے مدینہ منوّرہ کے ہوائی اڈے پر اُتریں گے۔ ہوائی اڈّےسےہم سیدھے مسجدِ نبویؐ پہنچے اور زندگی میں پہلی بار اُس مقدّس جگہ پر روزہ افطار کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، جہاں خود سرورِ کائناتﷺ روزے افطار کیا کرتے تھے۔
مسجدِ نبویؐ ہی میں مغرب کی نماز ادا کی اور روضۂ رسولؐ پر درود وسلام کے لیے حاضری دی۔ کچھ دیر بعد مسجد سے نکلے تو وفد کو گورنرمدینہ کے شاہی مہمان خانے میں لے جایا گیا، رات کو وہیں قیام ہوا۔ دوسرے روز یہ خصوصی قافلہ جدّہ پہنچا۔ ایک رات وہاں قیام کرنے کے بعد ہم نے احرام باندھ لیے اور لگژری کوچز کے ذریعے مکّہ کےلیے روانہ ہوگئے۔
مکّہ معظمہ میں ہمیں حرم سے متصل سولہ منزلہ شاہی محل (دارالضیافہ) میں ٹھہرایا گیا، محل کے ڈائننگ ہال کا بوفے ٹیبل واقعی شاہانہ تھا، جو ہر وقت اَن گنت اقسام کے کھانوں، مشروبات سے بَھرا رہتا۔ اس محل کے پندرھویں فلور پرنماز کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ویسے مسجد الحرام کے ہم سائے میں علیحدہ مسجد کا تصوّر مجھے کچھ نامناسب اور ناگوار محسوس ہوا۔
دوسرے روز دس بجے کے قریب جب مَیں وفد کے چند ارکان کے ساتھ طواف میں مصروف تھا تو ایک دم ہلچل سی محسوس ہوئی۔ سعودی پولیس افسران بڑی تعداد میں خانہ کعبہ کی جانب آتےدکھائی دیئے۔ پھر دیکھا کہ حرم کا اسٹاف رسّوں کی مدد سے طواف کرنے والوں کو پیچھے ہٹا رہا ہے۔ ’’یہ کیا ماجرا ہے، لوگوں کو پیچھے کیوں ہٹایا جارہا ہے؟‘‘ ایک ساتھی نے پوچھا۔ ’’وہ دیکھیں، پرائم منسٹر آرہے ہیں۔ اُن کے ساتھ افغانستان کے صدر اوروزیرِاعظم بھی ہیں۔
غالباً طواف کیے لیے آرہے ہیں۔‘‘ جواب ملا۔ ’’طواف کے لیے وہ بھی مخلوقِ خدا کے ساتھ شامل ہوجاتے، دوسروں کو پیچھے ہٹانےکی کیا ضرورت تھی؟‘‘ میرے منہ سے بےاختیار نکلا۔ بہرحال،انہوں نے طواف کے سات چکر مکمل کیے تو پھر ہلچل مچی گئی۔ عام زائرین کو مزید پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اب کیا دیکھتے ہیں کہ سیڑھی لائی جارہی ہے۔ سیڑھی خانہ کعبہ کے دروازے کے ساتھ لگادی گئی۔ خانہ کعبہ کے قریب اب صرف سعودی پولیس افسران تھے یا پاکستانی وفد کےارکان۔
دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کو بہت پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔ وہیں پتا چلا کہ وفد کے ارکان کےلیے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا جارہا ہے اورارکان چار چار کے گروپس میں اندر جاکر نوافل ادا کریں گے۔ سب سے پہلے وزیرِاعظم نواز شریف اور اُن کے ساتھ افغانستان کے صدر برہان الدین ربانی اور وزیرِ اعظم گلبدین حکمت یار خانہ کعبہ کے اندر گئے اور نوافل ادا کرنے کے بعد باہر آگئے۔ اُن کے بعد شہباز شریف، وزراء اوروفد کے دیگر ارکان جاتے رہے۔
جب کہ عام زائرین یہ منظربڑی حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ مجھے یہ سب کچھ بہت ناگوار محسوس ہوا۔ ذہن میں خیالات کی یلغارتھی۔ ’’یاالہٰی! تیرے گھربھی وی آئی پیز… تیرے گھر بھی خواص وعوام کا فرق ہے؟ خانہ کعبہ میں بھی یہ امتیاز برتاجائے گا، تو پھرمساوات کہاں ہوگی؟ یہاں تو ایسا نہیں ہوناچاہیےتھا۔
ایک طرف وہ لوگ ہیں، جو بےپناہ شوق اور جذبات سے سرشار ہوکر آئے ہیں اور اُن میں بہت سے ایسے بھی ہیں، جو اپنے مال مویشی، زیور، جائداد تک بیچ کر ﷲ کے گھر کی زیارت کے لیے پہنچے ہیں، تواُن کے ساتھ یہ سلوک کہ اُنہیں دُور دھکیل دیا گیا اور دوسری طرف یہ حکومتی وفد کے ارکان ہیں، جو سرکاری خرچے پر یہاں آئے ہیں۔ رسّے کے اُس طرف والے جذبات سے سرشار ہیں اور اِس طرف والے محض ’’سرکاری دورے‘‘ پر آئے ہوئے ہیں۔
اے کائناتوں کے خالق ومالک! تیرے گھر میں بھی یہ امتیاز روا رکھا جائے گا، تو برابری کہاں ہوگی؟ یا الہٰی! تیرا دربار ہی تو ایسی جگہ ہے، جہاں امیروغریب، بادشاہ و فقیر سب ایک ہی صف میں ہونے چاہئیں، مگر یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ اس منظر نے طبیعت کو اس قدر مکّدر کردیا کہ چند لمحات کے لیے تو عُمرے کا جذبہ ہی ماند پڑگیا۔
ذہن میں بار بار یہی خیال آتا رہا کہ اے کاش! ایسا نہ ہوتا۔ اے کاش! ﷲ کے گھر میں خاص و عام کا فرق روا نہ رکھا جاتا۔ اُس وقت ایک عجیب سی خواہش نے جنم لیا کہ اےکاش! ایسا ہوکہ خالقِ کائنات اپنے گھر میں روا رکھے جانے والے اس فرق اور امتیاز پر اپنی نا پسندیدگی کے اظہار کے لیے حضرت جبرائیلؑ کو اِسی وقت بھیجیں۔
جبرئیلؑ آسمانوں سےزمین پر اُتریں تو اُن کی ہیبت سے ہر شخص پرکپکپی طاری ہو جائےاور وہ آکے اعلان کریں کہ ﷲ کے اس گھر میں بڑے عہدے والوں کو نہیں، بلند جذبات رکھنے والوں کو خانہ کعبہ کے اندرجانے کی اجازت ہوگی۔ اور پھر اُن کے ایک اشارے پر دنیا دار اور صاحبانِ اختیار پیچھے دھکیل دیئے جائیں اور سچے جذبات،عقیدتوں سے سرشارافراد سرکاری وفد کی جگہ وی وی آئی پیز بن جائیں۔
مَیں تادیر انہی خیالات میں گم رہا، یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے اندر جانے کا بھی خیال نہ رہا۔ اُدھر وفد کےتمام ارکان نفل ادا کرچُکے، تو سیڑھی اُتر گئی۔ اچانک پی ایم اسٹاف کے ایک افسر کی نظر مجھ پر پڑی۔ اُس نے باآوازِ بلند مجھ سے پوچھا۔ ’’آپ اندر سے ہوآئے ہیں؟‘‘ مَیں خاموش رہا۔ اُس نے سمجھا، شاید رش کی وجہ سے مَیں نہیں جاسکا۔ اُس نے عربی زبان میں سیڑھی لے جانے والے اہل کار کو پکارا اور سیڑھی دوبارہ لگانے کے لیے کہا۔
سیڑھی دوبارہ آگئی، تو اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر سیڑھی پر چڑھا دیا اور مَیں نے بھی خانہ کعبہ کے اندر جاکر دو نوافل ادا کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ مَیں آج بھی سوچتا ہوں کہ خانہ کعبہ کے اندر نہ جاتا تو حسرت ہی رہتی، لیکن اُس وقت مَیں نے بھی یہ نہ سوچا کہ اُسی صحنِ حرم میں لاکھوں افراد مجھ سے کہیں زیادہ اِس اعزاز کے حق دار ہیں۔ مَیں نے اپنی جگہ اُن میں سے کسی کو خانہ کعبہ کے اندر کیوں نہ بھیج دیا۔ مجھے بھی قربانی دینے کی توفیق نہ ہوئی اور مَیں نے بھی اپنا ذاتی مفاد ہی پیشِ نظر رکھا، اس لیےکہ مَیں بھی ایک عام سا گناہ گار انسان ہوں۔
اُنہی دنوں پتا چلا کہ پرائم منسٹر کی بیٹی مریم کی نسبت اُن کے اے ڈی سی، کیپٹن صفدر سے طے پاگئی ہے۔اگر نوازشریف چاہتے تو بیٹی کی شادی کو مُلک کا سب سے بڑا ایونٹ بناسکتے تھے، مگر انہوں نے یہ شادی انتہائی سادگی سے کرکے دوسرے سیاست دانوں کے لیے بہت اچھی روایت قائم کی ( حالاں کہ بعدازاں اُن کی بیٹی اور بیٹے نے اپنے والد کی قائم کردہ روایت کی برخلاف اپنی اولاد کی شادی پر بےجا اسراف کیا) مجھے یاد ہے، اپنے اس اقدام سے متعلق پرائم منسٹر نے میرا ردّعمل یا رائے بھی پوچھی، تومَیں نے اِسے قابلِ ستائش اور قابلِ تقلید قرار دیا۔
میاں صاحب نے تو فیملی ممبرز کے علاوہ کسی کو نہیں بلایا مگر دُولھے نے (جو ہمارا کولیگ تھا)مجھے اور چوہدری رؤف کو اپنے ولیمے پر ضرور مدعو کیا۔ کیپٹن صفدر کے ولیمے میں ہم اکٹھے مانسہرہ گئے۔ کیپٹن صاحب کے سادہ سے مکان کے سامنے کُھلی جگہ پر ولیمے کی تقریب انتہائی سادہ سی تھی، تھوڑے سے مہمان تھے، جن میں کوئی معروف شخصیت نہیں تھی۔
پرائم منسٹر امن و انصاف یقینی بنانے کے لیے پورے خلوص کے ساتھ دن رات کوشش کر رہے تھے۔ اُس دَور میں وہ چھُٹّی کی بھی پروا نہیں کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے، عید سے ایک روز پہلے وہ لاہور کے ہوائی اڈے پر اُترے، تو مجھ سے کہنےلگے۔ ’’میرا خیال ہے، کل عید سندھ کے غریب ہاریوں کے ساتھ منائی جائے۔ آپ ساتھ چلیں گے؟‘‘ مَیں نے وزیرِاعظم کا جذبہ دیکھ کر کہا۔ ’’سر! مَیں بالکل تیار ہوں۔‘‘
اس طرح کئی عیدیں سندھ کی دور دراز گوٹھوں میں اور کئی چُھٹیاں بلوچستان میں جھونپڑیوں کے مکینوں کے ساتھ گزاریں۔ 1990-93ء کا دَور ہر لحاظ سے بہترین دور تھا۔ اُس دَور میں بےشمار نئی صنعتیں لگیں۔ مُلکی تعمیر و ترقی اور امن و انصاف کے قیام کے لیے پرائم منسٹر نوازشریف بڑے جوش و جذبے سے کام کررہے تھے۔ معاشی میدان میں مثالی ترقی ہورہی تھی، مگر اس ترقی کو وطنِ عزیز کے بدخواہوں کی بُری نظر لگ گئی۔
ایوانِ صدر میں سازشیں پلنے، پروان چڑھنے لگیں، خصوصاً دوایشوز صدرغلام اسحاق خان اور وزیراعظم نوازشریف کے درمیان کشیدگی کا باعث بن گئے۔ ایک یہ کہ وزیرِاعظم سمجھتے تھے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار منتخب وزیرِاعظم کے پاس ہونا چاہیے، جب کہ صدر اپنے اس اختیار سے دست برداری پر تیار نہ تھے۔
دوسرا یہ کہ جمہوری روایت کے مطابق وزیرِاعظم، اپوزیشن لیڈر بےنظیر بھٹو سے اچھے تعلّقات قائم کرنا چاہتے تھے اور اِسی اسپرٹ کے تحت حکومت نے بے نظیرصاحبہ کو فارن ریلیشنز کمیٹی کی چیئر پرسن بھی بنا دیا تھا۔ حکومت کے اِس مفاہمانہ اقدام کوباباجی نے سخت ناپسند کیا اور پھر ایوانِ صدر سازشوں کا گڑھ بن گیا۔ پہلے کچھ وزراء سے استعفےدلوائے گئے۔اُس کےبعد کچھ ممبرانِ اسمبلی سے بغاوت کروائی گئی اور ایسی ہی سازشوں سے مُلکی ترقّی کا دوڑتا ہوا پہیا رُک گیا۔
حُکم ران پارٹی کے کچھ سینئر لیڈرز نے وزیرِاعظم اور صدر کے درمیان صلح کی کوششیں بھی کیں۔ اسپیکر الہٰی بخش سومرو اور جنرل مجید ملک وزیرِاعظم کو ہر روز اُن کی مرضی اور ضمیر کے خلاف زور لگا کر ایوانِ صدر بھیجتے،مگر وہ اسحاق خان کو نرم کرنے میں ناکام ہی رہتے اورمایوس ہوکر لَوٹتے۔ غلام اسحاق خان ایک ایمان داراورمحبِّ وطن شخص تھے، مگر اپنی انا اور ضد میں اِس حد تک چلے گئے کہ مُلک کا استحکام اور مفاد بھی روند ڈالا۔
مَیں ان سارے واقعات کا عینی شاہد تھا، مَیں ہر روز وزیرِاعظم کو ایوانِ صدرجاتے اور پھر واپس آتے دیکھتا۔ اُن کی باڈی لینگویج سے بخوبی اندازہ ہوجاتا کہ برف نہیں پگھل سکی اور’’باباجی‘‘ کی انا اورضد ہر معقول بات کے آڑے آرہی ہے۔ اُدھر غلام اسحاق خان کے پاس وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار جمع ہونا شروع ہوگئے۔ صدر اور وزیرِاعظم کے درمیان تعلقات point of no return تک پہنچ گئے۔ وزیرِاعظم کے دل اور ضمیر پر جوبوجھ تھا، وہ اُن کے چہرے سے صاف نظر آتا تھا، بالآخر وزیرِاعظم نے یہ بوجھ اتار دینے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔
وزیرِاعظم عموماً ہفتے کی شام کو لاہور جاتےتھے، مگر 16 اپریل 1993ء کی رات فیصلہ ہوا کہ کل وزیرِاعظم دوپہر میں لاہورجائیں گے۔17پریل 1993ء کو پرائم منسٹر کا جہاز جن مسافروں کو اسلام آباد سے لاہور لےکر گیا، اُن میں راقم بھی شامل تھا۔ شام کو نواز شریف کے اپنے گھر یعنی ون ایچ، ماڈل ٹاؤن کے ڈرائنگ روم میں پی ٹی وی کے کیمرے نصب ہوگئے اور وزیرِ اعظم نے وہ تاریخی تقریر کی، جس نے وزیرِ اعظم نواز شریف کو ایک مقبول عوامی رہنما بنا دیا۔
نواز شریف نے بار بار یہ کہہ کر کہ ’’مَیں ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔‘‘ اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیاں پھینک دیں، زنجیریں توڑ ڈالیں۔ نواز شریف تقریر کرنے کے بعد لان میں آگئے، اور وہیں مغرب کی نماز ادا کی۔ تقریر کے بعد نواز شریف صاحب کا چہرہ (جو کئی ہفتوں سے بہت تناہواسا محسوس ہوتا تھا) انتہائی پُرسکون ہوگیا۔ جیسے اُن کے سر سے ٹنوں بوجھ اُترگیا ہو۔
وہاں جو دو تین لوگ میاں نوازشریف کے ارد گرد کھڑے تھے، اُن میں پنجاب کےہوم سیکریٹری حاجی اکرم بھی تھے، جو وزیرِاعظم کے کان کے اندر منہ لےجا کر مشورے دینے کے شوقین تھے۔ وزیرِاعظم مکمل طور پر defiance کے مُوڈ میں تھے۔
کسی نے پوچھا کہ تقریر کا ایوانِ صدر کی طرف سے کیا ردِّعمل آئےگا؟ پاس کھڑے ایک دوخوشامدی قسم کے بیوروکریٹس نے کہا۔ ’’سر!اب کوئی ردِّعمل نہیں آسکتا، اسحاق خان ختم ہوگیا۔‘‘مَیں نےکہا۔ ’’نہیں جناب! کل پریذیڈنٹ بھی قوم سے خطاب کرے گا اور آج کی تقریر کا جواب دے گا۔‘‘
ایک اور خوشامدی افسر نے کہا۔ ’’ہم اسحاق خان کوٹی وی اسٹیشن تک آنے ہی نہیں دیں گے۔‘‘ مَیں نے پھر مداخلت کی اور کہا۔ ’’پریذیڈنٹ، ایوانِ صدر ہی سے تقریر ریکارڈ کروا کے ریلے کروادیں گے۔‘‘ اپنی تاریخ ساز تقریر ریکارڈ کروانے کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف بہت پُرسکون تھے۔
وہ آنے والے حالات سے بھی بے پروا،بےنیاز ہو چُکے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ گھر کے رہائشی حصّے میں چلے گئے۔ اُس کے بعد مَیں لاہور کے کچھ دوستوں سے جاکر ملا اور کچھ صحافی دوستوں سے بھی تبادلۂ خیال ہوا۔ سب نے یہی بتایا کہ پورے مُلک میں تقریر کو بہت سراہا گیا ہے۔
دوسرے روز پرائم منسٹر کا جہاز اپنے مسافروں کو لے کر واپس اسلام آباد پہنچ گیا، شام کو پرائم منسٹر ہاؤس کا وسیع ڈرائینگ روم وزراء اور دیگر رہنماؤں سے بَھرا ہوا تھا۔ ایوانِ صدر سے اندر کی خبریں لیک ہوکر پہنچ رہی تھیں، سب کو معلوم ہوچُکا تھا کہ اسحاق خان منتخب حکومت کو برخاست کرکے بلخ شیرمزاری کو وزیرِاعظم بنا رہے ہیں۔
نواز شریف صاحب نے سب کے ساتھ بیٹھ کرغلام اسحاق خان کی تقریر سُنی، جس میں اُنھوں نے وہی گِھسے پٹے الزام لگا کرحکومت برطرف کرنے اور اسمبلیاں توڑنےکا اعلان کیا۔ دو باتیں مجھے ابھی تک یاد ہیں۔ ایک یہ کہ تقریر کے بعد نواز شریف نے قسم اُٹھا کر کہا کہ ’’غلام اسحاق خان نے مجھ پر جو الزامات لگائے ہیں، وہ بالکل جھوٹے اور بےبنیاد ہیں۔‘‘
اتنے میں مغرب کی اذان ہوگئی، جس کے بعد وہاں موجود ارکانِ اسمبلی نے عقیدتاً میاں صاحب سے امامت کروانے کی درخواست کی، جو اُنہوں نے مان لی ور دورانِ نماز انتہائی خوش الحانی کے ساتھ قرآنِ مجید کی آیات تلاوت کیں۔ (جاری ہے)