کراچی (رفیق مانگٹ) عالمی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے اور 1945 کے بعد قائم عالمی نظام ٹوٹنے کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
برطانوی جریدے اکانومسٹ کے مضمون کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نیا مافیا جیسا انداز اپناتے ہوئے عالمی طاقت کے حصول کی دوڑ شروع کر دی ہے، جس کے تحت بڑی طاقتیں چھوٹے ممالک پر دباؤ ڈال کر سودے بازی کر رہی ہیں۔
اس ہفتے اقوام متحدہ میں پیش آنے والے غیر معمولی مناظر نے دنیا کو حیران کر دیا جب امریکا نے یوکرین اور یورپ کے مقابلے میں روس اور شمالی کوریا کا ساتھ دیا۔
جرمنی کے ممکنہ نئے چانسلر فریڈرک مرز نے خبردار کیا ہے کہ جون تک نیٹو کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ سودے بازی امن لائے گی اور 80 سال سے جاری امریکا کے استحصال کا بدلہ لے کر اسے اپنے سپر پاور مقام سے منافع دلانے میں مدد دے گی۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے دنیا زیادہ خطرناک ہو جائے گی اور امریکا خود کمزور اور غریب ہوگا۔ ٹرمپ نے 24 فروری کو فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ یوکرین پر بات چیت کے بعد کہا، میری پوری زندگی ڈیلز کے گرد گھومتی ہے۔
ان کے قریبی ساتھی، اسٹیو وٹکاف، سعودی عرب سے اسرائیل کی شناخت اور کریملن کی بحالی تک کے سودوں کے لئے دارالحکومتوں کے درمیان پروازیں کر رہے ہیں۔
یوکرین میں امریکی ڈان کورلیون انداز واضح ہوا جہاں ابتدائی طور پر 500 ارب ڈالر کے مطالبے کے بعد ایک مبہم معاہدہ طے پایا، جس کے تحت یوکرین کے معدنیات کو مشترکہ فنڈ کے ذریعے ترقی دی جائے گی۔ یہ واضح نہیں کہ بدلے میں امریکا سکیورٹی ضمانتیں دے گا یا نہیں۔
اس نئے نظام میں امریکا سرفہرست ہے، اس کے بعد وہ ممالک ہیں جن کے پاس وسائل، دھمکیاں، اور آمرانہ لیڈر ہیں۔ ولادیمیر پیوٹن روس کو دوبارہ سلطنت بنانا چاہتے ہیں، محمد بن سلمان مشرق وسطیٰ کو جدید بنانے اور ایران سے بچنے کے خواہشمند ہیں، جبکہ شی جن پنگ ایک مضبوط چین کے لیے کمیونسٹ اور قوم پرست نظریات کو ملانا چاہتے ہیں۔
تیسرے درجے میں امریکا کے اتحادی ہیں، جن کی وفاداری اور انحصار کو کمزوری سمجھا جا رہا ہے۔ 1945 کے بعد کے اصولوں کو توڑتے ہوئے سرحدیں مذاکرات کی میز پر ہیں۔ یوکرین کی سرحد ٹرمپ اور پوٹن کے ہاتھ ملانے سے طے ہو سکتی ہے۔
اسرائیل، لبنان اور شام کی سرحدیں 17 ماہ کی جنگ سے دھندلا گئی ہیں۔ ٹرمپ نے غزہ اور گرین لینڈ پر نظریں جمائی ہیں، جبکہ چین کے ساتھ بات چیت میں شی جن پنگ تائیوان، جنوبی بحیرہ چین یا ہمالیہ پر رعایت مانگ سکتے ہیں۔
معیشت پر بھی سودے بازی ٹیرف سے آگے بڑھ کر تیل کی پیداوار، تعمیراتی معاہدوں، اسٹارلنک سروس اور گولف ٹورنامنٹس تک پھیل گئی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ انداز دنیا اور امریکا کے مفاد میں ہے۔ اگرچہ 1945 کا نظام زوال پذیر تھا اور ابراہم معاہدوں جیسے غیر روایتی خیالات کامیاب ہوئے، لیکن سودے بازی کو بنیادی اصول بنانا پیچیدہ ہے۔
سعودی عرب ایران سے بچنے کے لئے دفاعی معاہدہ چاہتا ہے، لیکن اس کے لئے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل ماننا ہوگا، جسے ٹرمپ نے مسترد کر دیا۔ روس تیل کی پابندیاں ہٹوانا چاہتا ہے، جو سعودی عرب کی آمدنی کم کر سکتا ہے۔
اس سے جنگوں کا خطرہ بڑھے گا اور بھارت جیسے بڑے ممالک بھی غیر محفوظ ہو سکتے ہیں۔ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ اتحادیوں اور بحر اوقیانوس کی دوری سے فائدہ ہوگا، لیکن خلائی اور سائبر جنگیں اسے غلط ثابت کرتی ہیں۔
اتحادیوں کے تعاون کے بغیر، جیسے جرمنی کا رامسٹین ایئربیس یا آسٹریلیا کا پائن گیپ، امریکا کمزور ہوگا۔ جیسے جیسے اتحادی متبادل تلاش کریں گے، امریکا کی طاقت کم ہوگی اور نئے خطرات، جیسے ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ، بڑھیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کانگریس، مالیاتی منڈیاں یا ووٹر ٹرمپ کو روک سکتے ہیں، لیکن دنیا پہلے ہی ایک قانون سے خالی دور کے لیے تیاری کر رہی ہے۔ کیا یہ نیا نظام عالمی امن لائے گا یا افراتفری؟ وقت ہی بتائے گا۔