محمد کامران
ارسلان نے چھوٹی سی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا اور اب باقاعدہ رمضان المبارک میں تراویح پڑھاتا تھا۔ وہ بہت نیک بچہ تھا۔ اس کی امی نے سحری کے لئے بازار سے سودا سلف لانے کو کہا تو، ارسلان نے اپنی سائیکل سنبھالی اور بازار چلا گیا۔ وہاں پہنچا تو ایسا لگا، جیسے خانہ جنگی ہو رہی ہو۔ ہر چیز جو رمضان سے ایک دن پہلے دس روپے کی تھی، وہ بیس روپے میں فروخت ہو رہی تھی۔ وہ حیرت سے دکانداروں کو تک رہا تھا جو پیسے امی نے دیئے تھے، ان سے خریداری کی اور واپس گھر آگیا۔
ارسلان کی والدہ نے سامان چیک کیا تو وہ آدھا تھا۔ انہوں نے ارسلان سے کہا، ’’بیٹا! لگتا ہے آپ سودا پورا لے کر نہیں آئے؟‘‘
’’امی جتنے پیسے آپ نے دیئے تھے، ان میں یہی کچھ آسکا۔‘‘ ’’بیٹا....! پیسے تو مَیں نے آپ کے سودے کے حساب سے دیئے تھے، پھر آدھا سودا کیوں لائے ہو؟‘‘ ’’امی! رمضان المبارک کا چاند دیکھتے ہی دکانداروں نے پیسے دگنے کر دیئے ہیں کچھ اور چاہئے تو اس کے لئے مزید پیسے درکار ہوں گے۔‘‘ امی منہ بسور کر رہ گئیں۔ عشاء کی اذان کی آواز آئی تو ارسلان نماز پڑھنے چلا گیا۔
اگلے روز افطاری کا سامان لینے ارسلان دوبارہ بازار گیا، جس ٹھیلے پر جاتا وہاں کے نرخ کئی گنا بڑھ چکے تھے اور لوگ تھے کہ، بے دھڑک سودا خرید رہے تھے، اسے تو چکر آگیا۔ اشیاء خورد و نوش اتنی مہنگی تھیں کہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا خریدے؟
اچانک اسے سرکاری نرخ نامے کا خیال آیا۔ اس نے ایک پھل والے سے سرکاری نرخ نامے کی فہرست طلب کی جو حکومت متعین کرتی ہے۔ دکاندار نے حیرت سے ارسلان کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بولا، ’’آگے بڑھو لڑکے کس فہرست کی بات کر رہے ہو.... جاؤ اپنا کام کرو بڑا آیا سرکاری فہرست مانگنے والا۔‘‘ وہ خود کلامی کرتا ہوا تکبرانہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
ارسلان کو بڑا غصہ آیا ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری اس نے سائیکل پر کھڑے ہو کر ادھر اُدھر نظر دوڑائی تو اسے کچھ دور ایک کیمپ لگا ہوا دکھائی دیا جس پر بینر لگا ہوا تھا ’’شکایتی مرکز‘‘۔ ارسلان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سیدھا وہاں پہنچ گیا۔ وہاں پہلے ہی بہت رش تھا پولیس بھی کافی تھی۔ وہ سائیکل لے کر کیمپ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
ایک با رعب آدمی اسے لوگوں کے جھرمٹ میں نظر آیا جس کو سب ’’سر‘‘ ’’سر‘‘ کہہ رہے تھے ابھی وہ اسی شش و پنج میں تھا کہ اس سے کس طرح بات کرے ایک پولیس والے نے اس کی سائیکل کھینچ لی وہ زمین پر گرتے گرتے بچا یہ منظر سامنے بیٹھا وہ شخص دیکھ رہا تھا جسے سب گھیرے کھڑے تھے۔ ’’اپنا راستہ ناپو یہاں کیوں رش لگایا ہوا ہے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ارسلان کی سائیکل گھسیٹنے لگا۔
ارسلان بولا، ’’مجھے تمہارے صاحب سے بات کرنی ہے۔‘‘ یہ آواز سامنے بیٹھے شخص نے سن لی وہ گرج دار آواز میں بولا، ’’چھوڑ دو اس بچے کو آنے دو کیا کہنا چاہتا ہے؟‘‘ ارسلان سائیکل سے اترا اپنے حواس کو یکجا کیا حلیہ ٹھیک کیا اور اندر جا کر سلام کا۔ وہ شخص بولا، ’’ہاں بھئی بولو کیا مسئلہ ہے؟‘‘ ارسلان بولا، ’’رمضان المبارک مسلمانوں کا مقدس مہینہ ہے یہ ہر اعتبار سے بہت اہم ہے لیکن اس کے شروع ہوتے ہی اشیاء
خورد و نوش میں ہوش ربا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ ہمارے لئے گیارہ ماہ قدرے بہتر ہوتے ہیں لیکن ماہ صیام کے آتے ہی ہر شخص کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اس کی قوت خرید ختم ہو جاتی ہے ایسا کیوں ہے؟ دوسرے سرکاری نرخ کی فہرست کسی بھی ٹھیلے یا دکان پر آویزاں نہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘
اس شخص نے ارسلان کا بغور جائزہ لیا پھر بڑے پیار سے اسے اپنے ساتھ رکھی کرسی پر بٹھایا اور بولا، ’’ہم نے یہ شکایتی کیمپ اسی لئے لگایا ہے تاکہ لوگوں کو درست نرخ پر اشیاء خورد و نوش مل سکے ہم ان منافع خوروں کو پکڑنے کے لئے ہی بیٹھے ہیں۔‘‘ ارسلان فوراً بولا، ’’جی ہاں! مَیں بھی اسی لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔‘‘
اس شخص نے ارسلان کا ہاتھ پکڑا اور بولا، ’’چلو بتاؤ کون ہے جو بدتمیزی کرتا ہے۔‘‘ ارسلان اس ٹھیلے والے کے پاس گیا اس نے ایس ڈی ایم کو دیکھا جلدی سے نیچے ہاتھ ڈال کر فہرست تلاش کرنے لگا۔ پولیس والوں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ علاقہ ایس ڈی ایم نے اس ٹھیلے والے پر فہرست آویزاں نہ کرنے پر جرمانہ لگایا پھر ایس ڈی ایم نے خود ارسلان کی خریداری کروائی سارا سامان لینے کے باوجود اس کے پاس پیسے بچ گئے۔
اس نےان کا شکریہ ادا کیا۔ وہ بولا، ’’مجھے فخر ہے تم جیسے بچوں پر جو ایسے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور حق کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ یہ ملک کو تم جیسے بچوں کی ضرورت ہے۔‘‘ اب افطار میں وقت کم رہ گیا تھا، لہٰذا ارسلان سرپٹ گھر کی طرف دوڑا۔ دیکھا بچو! ارسلان نے اپنی مشکل کا کس طرح مقابلہ کیا۔ اس نے ہمت نہیں ہاری وہ اپنے موقف پر قائم رہا کیونکہ وہ سچا تھا۔