گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا ۔ ہر عمر کے چھوٹے بڑے بچے، مرد و خواتین خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ایسے میں چند بچّوں میں اچانک ہی کسی بات پر لڑائی ہوئی، کسی نے ان کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کی جو ناکام ثابت ہوئی۔
بات جنگل کی آگ کی طرح بڑوں تک پہنچی۔ اندر کا ماحول جو بڑا خوش گوار تھا یکایک رنگ بدل گیا ۔ پہلے تیوریاں چڑھیں، تاثرات بگڑے، پھر زبانیں نامناسب الفاظ کا استعمال کرنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے صورتحال قابو سے باہر ہونے لگی۔
کوئی سن نہیں رہا تھا لیکن سب اپنی اپنی بولیاں ضرور بول رہے تھے۔ ماحول میں تلخی گھلتی جا رہی تھی ناچاقی بڑھتی جا رہی تھی، شور بڑھتا جا رہا تھا۔ کچھ دیر قبل وہ مہمان جو معزز بنے بیٹھے تھے اپنی خوش گفتاری اور خوش اخلاقی کا نقاب اتار کر نامانوس لہجے اور اجنبی رویے اپنا کر ایک ایک کرکے اٹھتے جا رہے تھے۔
کیا تھا جو مہمانان گرامی کچھ ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرتے تو صورتِ حال بہت جلد کنٹرول میں آجاتی ۔ اور محفل اسی طرح رنگ جمائے رکھتی۔ لیکن ہم ٹھہرے بے صبرے و بے اختیار ہمیں اپنے آپ پر اختیار ہی نہیں۔ منٹوں میں آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔
جمی جمائی ہنستی مسکراتی محفل میں چنگاری ہی تو لگادی گئی وہ بھی صرف بچوں کی معمولی غلطی کی بنا پر ۔۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ ہم نے شعور و ادراک کو اپنی شخصیت سے نکال دیا ہے ۔ وہ جو ہماری شناخت تھی وہی تبدیل ہو گئی ہے ،تو پھر ہم کیسے اپنے آپ کو مہذب، تعلیم یافتہ اور با شعور گردانیں۔؟
کہتے ہیں شعور اور شور میں ایک ’’ع‘‘ کاہی تو فرق ہے ۔ لیکن یہ فرق بہت گہرا اور بامعنی ہے۔ یہ ع علم و عرفان کا ع ہے جو ہم سے بہت دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ’’ع ‘‘عمل و عقل کی نشاندھی کرتا ہے جو شاید اب آسمانوں پر کہیں اونچائی پر اُڑتا پھر رہا ہوگا۔۔ یہ ’’ع ‘‘عکس ہے اس عظمت کا جس سے اب عوام عاری ہو چکے ہیں۔ اور ایک بڑی تعداد تو ویسے بھی اس کی عادی ہو چکی۔ لیکن بہرحال ابھی ہم اتنی دور نہیں گئے۔ زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں ،جن کا ہمیں سمجھداری سے سامنا کرنا ہوتا ہے۔
چھوٹی باتوں کو اگر چھوٹا ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہوتاہے۔ انہیں بڑا اور برا بنا کر رشتوں میں گرہیں اور سوراخ بنانے سے گریز کیا جائے۔ معمولی باتوں کو معمولی ہی سمجھا جائے تو زندگی بہت آسان ہو جائے ۔ہمارے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ۔شعور کی سیڑھی چڑھنا اگرچہ آسان نہیں لیکن ہمت و استقلال سے یہ منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔
اس سیڑھی پر کئی گھماؤ اور چکر آتے ہیں۔ پیر رپٹتا ہے ٹھوکر بھی لگتی ہیں۔ سیڑھی چڑھتے چڑھتے ہانپنےبھی لگتے ہیں، کبھی تو سانس بھی قابو میں نہیں رہتا لیکن جن کو منزل پر پہنچنے کی جستجو ہو وہ پہنچ کر ہی دم لیتے ہیں ،چاہے کتنی ہی دشواریاں آئیں۔
حقیقتی شعور کو ایک پانچ فٹ کے قامت میں داخل ہونا چونکہ مشکل ہے اور اس کا مظاہرہ وقتاً فوقتاً وقار کے ساتھ کرنا اس سے بھی زیادہ کٹھن ہے۔ ہر ناپسندیدہ باتوں پر بھی صبر ووقارکا برتاؤ ، نرمی و تحمل کا دامن تھامے رہنا، لوگوں کی زبان کی چبھن اور لہجے کی سختی جھیلنا کھیل نہیں لیکن اس میں مہارت آپ کو بلندی پر بھی لے جاسکتی ہے۔
آپ دوسروں کی نظروں میں ستائش اور رتبہ حاصل کر لیتے ہیں ،جو کہ ہمارا حقیقی ہدف ہے ۔کیوںکہ یہیں سے ہمارے برداشت کے امتحان کا آغاز ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ غلط بات ہم سے برداشت نہیں ہوتی۔ حالانکہ برداشت تو غلط رویوں ، لہجوں اور نظروں کو ہی کیا جاتا ہے۔
مسکراہٹ ، الفت اور نرمی کی چاشنی سے تو لطف اندوز ہوا جا تا ہے، برداشت تھوڑی۔ ہم نے ہر لفظ کو غلط معنی پہنادیے۔ کہیں پڑھا کہ شعور کا پہلا درجہ ہی خاموشی ہے، دوسرے درجے میں بد تہذیبی کے جواب میں تحمل کا رویہ اور تیسرا درجہ جو یقیناً اعلیٰ اخلاق کا اظہار ہے وہ برائی کے بدلے اچھائی، بدی کے جواب میں نیکی اور بھلائی کا مظاہرہ۔ یہی تلقین دین اسلام کرتا ہے اور یہی انسانیت کی فلاح میں مضمر ہے۔
اگر آپ شعور کا دامن چھوڑ دیں گے تو دنیا میں زبان کی ترشی کے کانٹے ہی کانٹے بچھ جائیں گے ۔ پھر ہم کتنے کانٹے چنیں گے اسے سمیٹنے میں تو ہاتھ کے ساتھ دل و جگر بھی زخمی ہوں گے، لہٰذا ان کانٹوں کے پھیلاؤ سے پہلے ہی نفس پر پیر رکھ کر شعور کے درجوں کو منتخب کیجئے، اس کے بعد اگلے درجے کو اپنانے کی کوشش کریں۔
وقت لگے گا لیکن پروا نہ کریں کوشش جاری رکھیں ۔ یہ شعور ہی ہے جو آپ کے خاندان ، تعلیم ، تربیت کا حوالہ ہے ، آپ کی شخصیت کو نکھارنے و بنانے میں مددگار ثابت ہو گا ۔ تو پھر دیر کس بات کی۔۔۔۔۔!