• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجداری کارروائی میں DNA رپورٹ کو بطور ثبوت نہیں لیا جا سکتا، لاہور ہائیکورٹ

لاہور ( این این آئی) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق ندیم نے قرار دیا ہے کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو بنیادی ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، اگر دیگر تمام شواہد غلط ہوں تو صرف ڈی این اے رپورٹ سے ملزم کو جرم سے لنک کرنا کافی نہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے 19سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کرنے کے مقدمے میں عمر قید پانے والے ملزم محمد عارف کو چھ سال بعد بری کر دیا۔ جسٹس طارق ندیم نے قانونی نکتہ طے کرتے ہوئے ملزم کی سزا کیخلاف اپیل پر گیارہ صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کر دیا۔جسٹس طارق ندیم نے فیصلے میں لکھا کہ موجودہ دور میں کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ڈی این اے کا کردار بہت اہم ہے، عدالتوں کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ڈی این اے رپورٹ قانون کے مطابق ہے یا نہیں، یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ڈی این اے سیمپل محفوظ طریقے سے فرانزک کیلئے بھجوائے گئے ہیں یا نہیں۔عدالتی فیصلے میں لکھا گیا کہ اگر ڈی این اے سیمپل محفوظ طریقے سے منتقل نہ ہوں تو اسکی رپورٹ پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا، فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو محض ایکسپرٹ شواہد کے طور دیکھا جا سکتا ہے، کسی بھی وقوعہ کی ڈی این اے رپورٹ کو صرف ماہرین کی رائے کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ اگر دیگر تمام شواہد غلط ہوں تو صرف ڈی این اے رپورٹ سے ملزم کو جرم سے لنک کرنا کافی نہیں ہے، شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ استغاثہ کا کیس شکوک وشبہات سے بھرا پڑا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایسے شکی اور غیر حقیقی شواہد پر ملزم کی سزا برقرار نہیں رہ سکتی، ملزم پر الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں لیکن صرف اس گرائونڈ پر سزا نہیں دی جا سکتی، ملزم کیخلاف پیش کے گئے شواہد میں سنجیدہ قانونی نقائص ہیں۔
اہم خبریں سے مزید