کراچی (محمد ندیم /اسٹاف رپورٹر)مودی اور ٹرمپ ارب پتیوں کے ساتھ کس طرح الگ سلوک کرتے ہیں، دونوں نے سیاسی مقاصد کے لئے صنعتکاروں کو استعمال کیا ہے۔اپریل 2024 میں ، ایلون مسک کی بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات طے تھی جہاں انہوں نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے ٹیسلا فیکٹری کا اعلان کرنا تھا تاہم اس کے بجائے ، انہوں نے نے آخری لمحے میں اپنا شیڈول منسوخ کردیا اور چین چلے گئے ۔ مسک کے اس فیصلے پر بھارتی میڈیا نے شہہ سرخیوں میں تنقید کی ۔ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ میں ابھر کر سامنے آنے کے بعد اس واقعے نے ایشیا کے بڑے صنعتی ملک میں بطور ایک قیمتی سفیر مسک کے کردار کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے ۔ بھارت امریکا کیساتھ اپنے تعلقات سے جوکچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اس میں سے بیشتر کا تعلق ا یلون مسک سے ہی ہے جس میں بڑی سرمایہ کاری کا امکان، قیمتی ٹیکنالوجی کی منتقلی اور وائٹ ہاؤس کے ساتھ براہ راست بیک چینل رابطہ شامل ہے ۔ لیکن ایک مختلف انداز میں دیکھا جائے تو، ہندوستان، ارب پتی صنعت کاروں اور سیاسی طاقت کے بروکرز کے درمیان قریبی روابط کے اپنے نظام کے ساتھ، ایک ابھرتے ہوئے امریکی اقتصادی ماڈل کو سمجھنے کا ایک ذریعہ پیش کرتا ہے، جس میں مسک جیسے ٹائیکون صنعتی پالیسی کے منصوبہ ساز کے طور پر کام کرتے ہیں بلکہ سیاسی طاقت کے روابط کار بھی ہوتے ہیں ۔