مولانا زبیراحمد صدیقی
موت ایک اٹل حقیقت ہے، اس سے کسی کو بھی مفر نہیں اور مرنے کے بعد میّت کے مال و ترکے کو ’’وراثت‘‘کہتے ہیں۔ شریعتِ اسلامیہ نے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی نہ صرف مکمل رہنمائی فرمائی ہے، بلکہ وراثت کا ایک مستقل نظام عطا فرمایا۔ ایسا نظام جو عدل، اخوت، محبّت، انسانی ہم دردی اور صلہ ٔرحمی کا شان دار مظہر ہے۔
اسلام کے قانونِ وراثت میں مرد و زن، ضعیف و قوی، امیر وغریب، کبیر و صغیررشتے داروں کی پوری پوری رعایت رکھی گئی ہے۔ مرنے والے کی اولاد ہویا والدین، بیوی ہو یا شوہر، بیٹے ہوں یا بیٹیاں سب ہی کو اس کی میراث میں منصفانہ حصّہ دیا گیا ہے۔
اولاد نہ ہونے کی صُورت میں بہن بھائی تک کو بھی نوازا گیا ہے۔ یہ خُوب صورت نظام اُس زمانے میں حق تعالیٰ نے اپنے حبیبِ کریم ﷺکو مرحمت فرمایا، جب عہدِ جاہلیت کے معاشرے میں وراثت کے حوالے سے نہایت بے انصافی اور ظلم پر مبنی قوانین رائج تھے۔ زمانہ جاہلیت میں وراثت صرف جنگ جُو مردوں کو ہی ملتی تھی، وراثت میں حصّہ پانے کے لیے ضروری تھا کہ آدمی شمشیر بکف ہوکر میدانِ جنگ میں اُتر سکتا ہو۔
اسی قانون کے تحت کم زور طبقات وراثت سے محروم ٹھہرتے تھے، مرنے والے کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچّوں کو مذکورہ شرط پر پورا نہ اُترنے کے سبب وراثت سے محروم قرار دیا جاتا تھا۔ اسی طرح جملہ خواتین بشمول مرحوم کی والدہ، زوجہ، بیٹی، بہن وغیرہ بھی جنگ جُو نہ ہونے کی وجہ سے وراثت سے محروم ٹھہرتیں۔ وراثت صرف طاقت وَر کا حق ہوتا، اس لیے سارا ترکہ مرحوم کی جوان اولاد، یعنی اس کے بھائی وغیرہ لے جاتے تھے۔ یوں بیوہ، بیٹیاں، یتیم بچّے ایک ایک لقمے کو ترستے تھے۔
چناں چہ حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن ربیع ؓکی زوجہ، رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہ ﷺ !یہ سعد کی دو بیٹیاں ہیں، اُن کے والد غزو ہ ٔاُحد میں شہید ہوگئے۔ اُن کے چچا، سعد کے پورے مال پر قابض ہوگئے ہیں اور اُن کے لیے کچھ بھی مال نہیں چھوڑا۔ صورتِ حال یہ ہے کہ بچیوں کی تو شادی بھی مال کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔‘‘
اس پر رسول اللہ ﷺ گویا ہوئے۔’’اللہ تعالیٰ اس کے متعلق بھی فیصلہ مرحمت فرمائے گا۔‘‘ چناں چہ (نظام ِمیراث پر مشتمل) آیاتِ میراث نازل ہوئیں (سورۃ النساء کی آیت12 میں جملہ رشتے داروں کی وراثت کی تفصیل مذکور ہے)۔ آپ ﷺ نے بچیوں کے چچا کو طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا- ’’سعد کی دو بیٹیوں کو دو ثلث(2/3) اور اُن کی والدہ کو ایک ثمن (1/8) دے دو، باقی تمہارا ہے۔‘‘ (سنن ابوداؤد، ترمذی، ابنِ ماجہ، بحوالہ تفسیر ابنِ کثیر)۔
یہ پہلا موقع تھا، جب روئے ارض پر جاہلانہ رسوم کو پاش پاش کرکے اسلام کا خُوب صُورت نظامِ وراثت امّت کو دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس نظام کو مستقل علم قرار دےکر اس کا نام ’’علم الفرائض‘‘ تجویز فرمایا اور صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ ’’علم الفرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ،یہ نصف علم ہے اور یہ علم بُھلوا دیا جائے گا، اور یہ سب سے پہلی چیز ہوگی، جو میری امّت سے لے لی جائے گی۔‘‘(ابنِ ماجہ)
علم الفرائض یا علم المیراث بحمدُلِلہ زندہ و تابندہ ہے، قرآن وسنّت سے ماخوذ یہ علم مستقل حیثیت رکھتا ہے اور ساڑھے چودہ صدیوں سے امّت میں نافذ ہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ علمائے کرام کی کاوشوں سے اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے عدالتی نظام میں بھی وراثت کا قانون، تقریباً موافقِ شرع نافذ ہے۔ اس قانون کی تشریح کرنے والے اہلِ علم و فتویٰ بھی بحمدُللہ! دینی مدارس و جامعات میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں، لیکن مذکورہ بالا حدیث کی پیش گوئی کے مطابق امّت کا ایک بڑا طبقہ قانونِ وراثت پر عمل ترک کرکے اسلام کا باغی بنتا جارہا ہے۔
نیز، علاقائی رسوم و رواج اختیار کرکے بعض ورثاء کو محروم کرکے نہ صرف دنیا میں جدل و جدال، بغض و نفرت کا لامتناہی سلسلہ جاری کرتا ہے ،جو نسلوں تک باقی رہتا ہے، بلکہ اپنی قبر، حشر اور آخرت بھی برباد کرلیتا ہے۔ وراثت کے سلسلے میں شریعتِ اسلامیہ نے جملہ جزئیات کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور اس قانون پر عمل نہ کرنے والوں کے لیے سخت سزا کا اعلان بھی کیا ہے،
چناں چہ سورۃ النساء میں قانونِ وراثت بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا۔ ’’یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں، اور جو شخص اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے گا، وہ اُسے ایسے باغات میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ایسے لوگ ہمیشہ اُن (باغات) میں رہیں گے، اور یہ زبردست کام یابی ہے۔ جو شخص اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرے گا اور اُس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا، اُسے اللہ دوزخ میں داخل کرے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اسے ایسا عذاب ہوگا، جو ذلیل کرکے رکھ دے گا۔‘‘ (سورۃ النساء،آیات14-13)۔
مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ اسلام کے نظامِ وراثت پر عمل کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ جنّت نصیب فرماتا ہے اور وراثت کا قانون ترک کرنے، تبدیل کرنے یا جزوی طور پر عمل نہ کرنے پر دوزخ اور ذلّت آمیز عذاب کا اندیشہ ہے۔ قانونِ وراثت پر عمل نہ کرنے پر احادیثِ نبوی ؐ میں بھی متعدد وعیدیں مذکور ہیں، چناں چہ جامع ترمذی میں ہے کہ سیّدنا ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔’’مرد و زن ساٹھ سال تک اطاعتِ خداوندی کرتے رہتے ہیں، پھر بہ وقتِ وفات، وصیّت میں (کچھ ورثاء کو) نقصان پہنچاتے ہیں، تو اُن کے لیے دوزخ لازم ہوجاتی ہے۔‘‘ ایک روایت میں یوں بھی مذکور ہے۔
’’ایک شخص ستّر سال تک نیک اعمال کرتا رہتا ہے، لیکن وراثت کے سلسلے میں ظلم پر مبنی وصیّت کرتا ہے، تو اُس کا خاتمہ شَر پر ہوتا ہے، پھر وہ دوزخ میں جاگرتا ہے۔‘‘ ایک آدمی ستّر سال تک بُرے اعمال کرتا ہے، لیکن وصیّت کے سلسلے میں عدل سے کام لیتا ہے، تو اُس کا خاتمہ بالخیر ہوتا ہے اور وہ جنّت میں چلا جاتا ہے۔‘‘ (سنن ابو داؤد، ترمذی، ابنِ ماجہ)۔
معاشرے میں عام مشاہدہ ہے کہ بہت سے لوگ وراثت کے ضمن میں خلافِ شرع وصیّت کرتے ہیں، جس سے کسی وارث کا حق سلب ہوجاتا ہے۔ نیز، وہ وارث محروم ہو جاتا ہے، کچھ لوگ اپنے کسی بیٹے کو جائیداد سے عاق کردیتے ہیں، کچھ بیٹیوں یا بیوی کو وراثت سے محروم کرتے ہیں، کچھ وارثین کو محروم کرنے کے لیے اپنا سارا مال راہِ خدا میں یا دوسروں کو دے دیتے ہیں، اس طرح کی خلافِ شرح وصیّت پر سوئے خاتمہ اور مرنے کے بعد دوزخ میں جانے کی وعیدہے۔
اہل علم کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ کسی بھی وارث کو درج ذیل وجوہ کے علاوہ وراثت سے محروم کرنا ممنوع ہے۔1)… وارث اور مورث کا دین جدا جدا ہو، مثلاً مورث مسلمان اور وارث غیر مسلم ہو۔2)… وارث اپنے مورث کا قاتل ہو۔3)…دونوں میں سے ایک دارالحرب میں، جب کہ دوسرا غیردارالحرب میں اقامت پذیر ہو۔ ایک صُورت یہ بھی تھی کہ دونوں میں سے ایک غلام ہو۔ مذکورہ بالا وجوہ کے علاوہ کسی بھی وجہ سے کسی بھی وارث کو وراثت سے محروم کرنا حرام اور غضبِ خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ معاشرے میں اپنے کسی بچّے کو جائیداد سے عاق کرنا قطعاً ناجائز اور حرام ہے، بعض لوگ بہ وقتِ وفات اپنے مال سے متعلق اس طرح وصیت کردیتے ہیں یا کسی کو دے دیتے ہیں کہ وارث خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں، ایسا کرنا بھی شرعاً ممنوع ہے۔ وصیت زیادہ سے زیادہ کُل مال کے ایک ثلت (1/3) میں کی جاسکتی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت سیدنا سعد ؓ سے مروی ہے کہ ’’حجۃ الوداع میں میری عیادت کو آپ ﷺ تشریف لائے، مجھے ایسی بیماری لاحق ہوگئی تھی، جس سے میں موت کے قریب تر ہوگیا۔
مَیں نے عرض کیا، یارسول اللہ ﷺ! مجھے جو تکلیف پہنچی، وہ تو آپﷺ نے دیکھ ہی لی، میں ایک مال دار شخص ہوں، میری صرف ایک بیٹی ہی وارث ہے، کیا میں اپنے مال کے دو ثلث(2/3) حصّے کو صدقہ کرسکتاہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا، نہیں۔ مَیں نے عرض کیا، آدھا؟، آپﷺ نے فرمایا نہیں، مَیں نے عرض کیا کہ تہائی مال صدقہ کرسکتا ہوں؟
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، ہاں تہائی بھی زیادہ ہے۔ (ثلث کی اجازت مرحمت فرمائی) تم اپنے ورثاء کو غنی چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں تنگ دست چھوڑو اور وہ لوگوں سے لپٹتے پھریں۔‘‘ مذکورہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف وصیت کی حد متعین فرمائی، بلکہ ورثاء کے حقوق بھی بیان فرمائے۔ ایک مال دار کے ورثاء کا حق ہے کہ اس کے جانے کے بعدوہ بھی مال دار ہوں۔
معاشرے میں بعض لوگ اپنی بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرکے جملہ جائیداد بیٹوں کے نام منتقل کردیتے ہیں، ایسے افراد مذکورہ بالا وعیدوں کو پیشِ نظر رکھنے کے ساتھ درج ذیل حدیث بھی پیشِ نظر رکھیں۔ سنن ابنِ ماجہ میں سیّدنا انسؓ کی روایت مذکور ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’جس نے اپنے کسی وارث کو وراثت سے محروم کیا، اللہ تعالیٰ روزِ محشر اُسے جنّت کی وراثت سے محروم کردے گا۔‘‘
اہلِ علم فرماتے ہیں کہ اگر مرنے والا خلافِ شرع تقسیم کا فیصلہ کرگیا ہو، یا علاقے اور برادری کا رواج غیر شرعی تقسیم کا ہو، جیساکہ بعض علاقوں میں لوگ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت نہیں دیتے یا وہ علاقائی رواج کی وجہ سے وراثت وصول کرنے میں شرم محسوس کرتے ہوئے بادلِ نخواستہ وراثت لینے سے انکار کردیتی ہیں، ایسی صورت میں میّت کی اخروی نجات کے لیے ضروری ہے کہ ورثاء، وراثت شریعت کے مطابق تقسیم کردیں، تاکہ مرنے والے سے اخروی بوجھ اُتر جائے۔ محض اپنے باپ، دادا کے طریقے یا علاقے کے رواج کو اپنائے رکھنا خلافِ شرع ہے۔
قرآنِ کریم نے آباء واجداد کی جاہلانہ تقلید سے منع کیا ہے، چناں چہ فرمایا۔ ’’اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ اس کلام کی پیروی کرو، جو اللہ نے اُتارا ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں! ہم تو اُن باتوں کی پیروی کریں گے، جن پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ بھلا کیا اس صُورت میں بھی (انہیں یہی چاہیے) جب اُن کے باپ دادا (دین کی) ذرا بھی سمجھ نہ رکھتے ہوں، اور انہوں نے کوئی (آسمانی) ہدایت بھی حاصل نہ کی ہو؟‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر170:)۔
شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ترک ِشریعت کرتے ہوئے رواج اپنانے سے دیگر اعمالِ صالحہ کے رَد ہونے کا بھی خطرہ ہے۔‘‘(امام لاہور کے مسائل، 206)۔ خلافِ شرع تقسیمِ وراثت کے مذکورہ بالا اخروی نقصانات کے ساتھ دنیوی نقصانات بھی کثرت سے ہیں۔ چناں چہ حضرت لاہوریؒ نے اپنے رسالے میں ان نقصانات کا ذکر فرمایاہے، جن کا خلاصہ درجِ ذیل ہے۔
1)…خلافِ شرع وراثت کی تقسیم میں چند افراد کا ذاتی نفع پیشِ نظر ہوتا ہے۔ اس میں خاص طور پر دوسرے کو نقصان پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔ اس لیے معاشرے میں ایسے خود غرض انسان کے خلاف نفرت و غضب کا پہلو ہوا کرتا ہے۔
2)… بہنوں کو وراثت سے محروم کرنے کی صُورت میں بھائیوں میں قائم رشتۂ اخوت نہ صرف متاثر ہوتا ہے، بلکہ منقطع بھی ہوجاتا ہے۔ بہنوں کے دل سے نکلنے والی بددعائیں بھائیوں کی دنیا و آخرت میں تباہی کا ذریعہ ہو سکتی ہیں۔
3)… یہ نفرت نسلوں میں منتقل ہوتی ہے، چناں چہ بھانجے جب بڑے ہوتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ماموں نے اُنھیں اُن کے نانا کی جائیداد سے محروم کیا تھا، تو وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ ہمارے ماموں خدا پرست نہیں، بلکہ زر پرست (پیسے کے پُجاری) ہیں۔
4)… خلافِ شرع تقسیمِ وراثت سے سسرال اور داماد کا رشتہ بھی متاثر ہوتا ہے۔ چناں چہ بہنوئی کو جب معلوم ہوگا کہ میری بیوی کی وراثت میرے برادرِ نسبتی نے غصب کی ہے، تو نہ صرف اُس کے دل میں نفرت پیدا ہوگی، بلکہ وہ زندگی بھر بددُعائیں بھی دے گا۔ نیز، اُسے یہ دُکھ بھی ستائے گاکہ اگر مجھے وراثت مل جاتی، تو میرا فلاں مسئلہ حل ہو جاتا۔
شریعت نے مرنے کے بعد میّت کے ترکے میں سے سب سے پہلے میّت کی تجہیز وتکفین کا حکم دیا، بعدازاں اُس کے ترکے میں سے اُس کے قرض کی ادائی کا حکم فرمایا۔ ادائی قرض کے بعد اگر مال بچ جائے، تو تہائی حصّے(1/3) تک میّت کی وصیّت کے مطابق خرچ کیا جائے۔
باقی مال شریعت کے مقرکردہ حصّوں کے مطابق ورثاء میں تقسیم کیا جائے۔ تقسیم ِوراثت سے قبل مشترکہ مال سے بلااجازت جملہ ورثاء، صدقہ وخیرات تک کرنا جائز نہیں، اگر ورثاء میں کوئی نابالغ ہے، تو اُس کی اجازت کا بھی اعتبار نہیں۔ ہاں، جملہ ورثاء تقسیم کے بعد اپنے اپنے حصّے سے جس قدر چاہیں موافقِ سنّت صدقہ و خیرات بھی کرسکتے ہیں۔