صحابئ رسول، حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ ’’اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، ایسا ماہِ مبارک، جس میں ایک ایسی رات (لیلۃ القدر) ہے، جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے، (یعنی اس ایک رات میں عبادت کا اجر و ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ ملتا ہے)۔‘‘
ایک حدیث میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ترجمہ:’’جو شبِ قدر سے محروم رہا، وہ گویا پوری بھلائی سے محروم رہا، اور شبِ قدر کی خیر سے وہی محروم ہوتا ہے، جو کامل محروم ہو۔‘‘ (سنن ابنِ ماجہ)۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’جو شخص ’’لیلۃ القدر‘‘ میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیّت سے (عبادت کے لیے) کھڑا رہا، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)۔
اس مقّدس اور بابرکت رات کی عظمت و اہمیت کا اندازہ رسول اللہ ﷺکے ان ارشادات سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس مقّدس شب کی عظمت و توقیر اُجاگر کرنے کے لیے خود اللہ عزّوجل نے قرآنِ کریم، فرقانِ حمید میں ایک مکمل سورت ’’سورۃ القدر‘‘ نازل فرماکر اس کی عظمت و رفعت پرمُہرِ تصدیق ثبت فرمائی ہے۔ اللہ عِزّوجل کا ارشاد ہے۔’’ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں رُوح (الامینؑ) اور فرشتے ہر کام کے (انتظام کے لیے) اپنے پروردگار کے حکم سے اُترتے ہیں، یہ (رات) طلوعِ صبح تک (امان اور) سلامتی ہے۔‘‘
محبوبِ سبحانی، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ ’’لیلۃ القدر کو اللہ تعالیٰ کے حُکم سے حضرت جبرائیلؑ سدرۃ المنتہیٰ کے ستّر ہزار فرشتوں کے ساتھ نورانی جھنڈے لیے ہوئے زمین پر اُترتے ہیں اور اُن جھنڈوں کو کعبۃ اللہ، مسجدِ نبویﷺ، بیت المقدس، مسجد طورِ سینا پر نصب کردیتے ہیں، اس کے بعد ملائکہ کو حکم دیتے ہیں کہ وہ روئے زمین پر پھیل جائیں، چناں چہ وہ فرشتے ہر گھر میں داخل ہوجاتے ہیں، مگر جس گھر میں کتّا یا خنزیر ہو، یا جس جگہ شراب کا دَور چل رہا ہو، یا جس جگہ جان داروں کی تصویریں آویزاں ہوں، جہاں بدکار، نجس مرد و عورت موجود ہوں، وہاں یہ فرشتے داخل نہیں ہوتے۔‘‘حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’لیلۃ القدر‘‘ میں جبرائیل،ؑ ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ زمین پر اُترتے ہیں اور ہر اُس شخص کے لیے جو (اُس رات) کھڑے یا بیٹھے اللہ کا ذکر کررہا ہو، اور عبادت میں مشغول ہو، دعائے رحمت کرتے ہیں۔ (سنن بیہقی)۔
اللہ تعالیٰ نے امام الانبیاء‘ سیدالمرسلین‘ خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کی امّت کو جسے قرآنِ کریم میں ’’خیرامّت‘‘ اور ’’امّتِ وسط‘‘ کے بلند القابات سے یاد کیا گیا ہے، آپﷺ کے صدقے اور وسیلے سے یہ مقدّس اور بابرکت شب عطا فرمائی، امّتِ محمدﷺ کو جن انعامات اور اعزازات سے سرفراز فرمایا گیا، اُن میں ایک عظیم ترین انعام ’’لیلۃ القدر‘‘ بھی ہے۔
اس ایک رات میں عبادت کا اجر و ثواب ایک ہزار مہینے کی عبادت و ریاضت سے بڑھ کر ہے۔ اس کی مقدار سالوں کے اعتبار سے تراسی سال، چار ماہ بنتی ہے۔ جسے قرآن نے ’’لیلۃ القدر خیرمن الف شہر‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ رات کن معنوں میں ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے؟ اس حوالے سے مفسّرین کے متعدد اقوال ہیں۔ امام رازی ’’تفسیر ِکبیر‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’عربی زبان میں کسی شے کی کثرت اور بہت بڑی تعداد کو ظاہر کرنے کے لیے ’’الف‘‘ ہزار کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہاں ’’الف شہر‘‘ سے مراد صرف ایک ہزار مہینے نہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ مقدّس رات ہزارہا مہینوں اور سالوں سے بہتر ہے۔ اب فرض کیجیے، کسی بندۂ مومن کو دس سال شبِ قدر کی عبادت نصیب ہوجائے، تو اسے گویا833برس، چار ماہ کی عبادت کا ثواب مل جائے گا اور بیس سال ’’لیلۃ القدر‘‘ نصیب ہو، تو سولہ سو چھیاسٹھ برس آٹھ ماہ کا اجر و ثواب ملے گا۔ بلاشبہ، امّت کو یہ فضیلت، یہ اعزاز و اکرام امام الانبیاء، سیّد المرسلین، خاتم النبیین، حضرت محمد مصطفیﷺ کے صدقے اور آپﷺ کے طفیل نصیب ہوا ہے۔
اس لحاظ سے اس امّت کے عبادت گزار بندے اجر و ثواب میں پچھلی امّتوں کے عبادت گزاروں پر سبقت لے جائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ عظیم انعام ہے کہ اس پر اُس کا جتنا شُکر ادا کیا جائے، کم ہے۔ اللہ عِزّوجل، امّتِ محمدیہﷺ کے ہر فرد کو اس عظیم سعادت سے مسلسل اور بار بار بہرہ وَر فرمائے۔ (آمین)۔ ’’لیلۃ القدر‘‘ امّتِ محمدیہﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔‘‘ (تفسیر مظہری)۔
لیلۃ القدر کے معنیٰ
’’قدر‘‘ کے ایک معنیٰ عظمت و شرف اور عزّت و بلندی کے ہیں۔ چناں چہ بعض مفسّرین نے یہی معنیٰ مراد لیے ہیں، یعنی اُس رات کو ’’لیلۃ القدر‘‘ کہنے کی وجہ عظمت و شرف والی رات کے ہیں۔ مفسّرین نے ایک قول یہ بیان کیا ہے کہ اس عظیم رات کو ’’لیلۃ القدر‘‘ سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ جس بندے کی اس رات سے قبل اپنی بداعمالی اور گناہوں کے سبب کوئی قدر و قیمت نہ تھی، اس رات، اپنے ربّ کے حضور وہ توبہ و مناجات اور عبادات کے ذریعے صاحبِ قدر و شرف بن جاتا ہے۔
’’قدر‘‘ کے ایک معنیٰ تقدیر و حکم کے بھی آتے ہیں، اس معنیٰ کے اعتبار سے ’’لیلۃ القدر‘‘ کہنے کی وجہ یہ ہوگی کہ اس رات ،تمام مخلوقات کے لیے جو کچھ تقدیرِ ازلی میں لکھا ہے، اس کا جو حصّہ اس سال کے رمضان سے اگلے رمضان تک پیش آنے والا ہے، وہ سب کچھ اُن ملائکہ کے سپرد کردیا جاتا ہے، جو کائنات کی تدبیر اور تنفیذِ امور کے لیے مامور اور مقرر ہیں، اس میں ہر انسان کی عُمر، موت، رزق اور بارش وغیرہ کے متعلق مقررہ فرشتوں کو لکھوادیا جاتا ہے۔
یہاں تک کہ جس بندے کو اس سال حج نصیب ہوگا، وہ بھی لکھ دیا جاتا ہے اور وہ فرشتے، جنہیں یہ امور سپرد کیے جاتے ہیں، بقول ابنِ عباسؓ، چار ہیں۔ حضرت اسرافیلؑ، حضرت میکائیلؑ، حضرت عزرائیلؑ اور سیّدالملائکہ حضرت جبرائیلؑ۔ (تفسیر قرطبی)۔
علامہ قرطبی نے ’’لیلۃ القدر‘‘ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔ اس رات کو ’’لیلۃ القدر‘‘ سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ اللہ عِزّوجل نے ایک بڑی قدر و منزلت والی کتاب (یعنی رشدوہدایت کا بے مثال سرچشمہ، قرآنِ کریم) بڑے قدر و منزلت والے رسولﷺ اور بڑی قدر و منزلت والی امّت پر نازل فرمائی۔
لیلۃ القدر کا تعین
’’صحیح بخاری‘‘ میں اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ترجمہ:’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔‘‘ جب کہ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عُمرؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ترجمہ:’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ (تفسیر مظہری)۔ وہ تمام احادیث، جو تعیین شبِ قدر کے متعلق آئی ہیں، اُن میں عشرئہ اخیرہ کی طاق 21، 23، 25،27،29 ویں راتوں میں لیلۃ القدر ہونے کا ذکر آیا ہے۔
لیلۃ القدر کو مخفی رکھنے کی وجہ
دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنی مقدّس، بابرکت اور عظمت والی رات کو مخفی اور پوشیدہ کیوں رکھا؟ علماء نے اس کے جواب میں لکھا ہے کہ اس طرح کے اہم امور کو اللہ نے مخفی ہی رکھا ہے، مثلاً اسمِ اعظم، جمعے کے دن دُعاؤں کی قبولیت کا وقت اور مقبول گھڑی، صلوٰۃ وسطیٰ کون سی نماز ہے؟
اسی طرح ’’لیلۃ القدر‘‘ کو بھی مخفی رکھا گیا، تاکہ بندہ ایک متعین وقت پر بھروسا کرکے ہی نہ بیٹھ جائے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر ایک رات متعین کرکے بتادی جاتی، تو اس کی اتنی قدر نہ ہوتی، جتنی اس صُورت میں ہوتی ہے، اس میں ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ بندگانِ خدا جو کسی مجبوری کے باعث ایک رات میں عبادت نہ کرسکے، تو دوسری رات میں کرلیں، تیسری، چوتھی یا پانچویں رات میں کرلیں۔
اللہ تعالیٰ اُن کے جذبے ہی پر اُنھیں اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ اس بیش قیمت رات کے چہرے پر قدرت نے نقاب ڈال دی ہے، تاکہ بندگانِ خدا اُس رات کی تلاش میں ایک رات درمیان میں آرام کرکے ہر طاق رات میں شب بے داری کریں اور اپنے ربّ کی رحمت و مغفرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر گناہوں کے میل کچیل سے پاک ہوجائیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص تمام سال ہر رات میں شب بے داری کرے، وہ شب قدر کو پاسکتا ہے، یعنی شب قدر سال میں کسی نہ کسی رات میں آسکتی ہے۔‘‘ کسی اللہ والے سے ’’لیلۃ القدر‘‘ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا؎ ’’اے دوست! چہ پُرسی کہ شبِ قدر کیستی..... ہر شب، شبِ قدر است، گر قدر بدانی۔ ترجمہ: اے دوست! شبِ قدر کے متعلق کیا پوچھتے ہو کہ کب ہوتی ہے؟ ہر شب، شبِ قدر ہے، اگر تم اس کی قدر جانو۔
احادیث نبویﷺ میں ’’لیلۃ القدر‘‘ کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم آتا ہے۔ البتہ ستائیسویں شب، شبِ قدر ہونے کا زیادہ احتمال ہے، جمہور علماء کا یہی قول ہے۔ اس حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے اس پر غور کیا، تو اس نتیجے پر پہنچا کہ اللہ تعالیٰ نے سات چیزوں کا ذکر فرمایا ہے، سات آسمانوں کا ذکر فرمایا، سات زمینوں کا ذکر کیا، انسان کی پیدائش کے بھی سات مرحلے ہیں، زمین سے اُگنے والی چیزیں بھی سات بیان کی گئی ہیں۔
بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابنِ عباسؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر سات چیزوں کا ذکر فرمایا ہے، بندہ نماز میں سجدہ بھی سات اعضاء پر کرتا ہے، بیت اللہ کے طواف کے بھی سات چکّر ہیں، منیٰ میں حجاج شیطان کو جو کنکریاں مارتے ہیں، اُن کی تعداد بھی سات ہے۔ بعض روایات میں اور باتوں کا بھی ذکر ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے ’’سبع مثانی‘‘ (یعنی سورۃ الفاتحہ جس کی سات آیات ہیں) نازل فرمائی۔
جن عورتوں سے نکاح حرام ہے، اُن کی تعداد بھی سات ہے، صفا و مروہ کی سعی کی تعداد بھی سات ہے۔ (تفسیر درمنثور)۔ چناں چہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے سات کے عدد سے استدلال کرکے ستائیسویں شب میں ’’لیلۃ القدر‘‘ ہونے کو ترجیح دی ہے۔ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ’’ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا، تو رسول اللہﷺ کمر کَس لیا کرتے تھے (زیادہ سے زیادہ عبادات کا اہتمام فرماتے تھے) اور اپنے گھر والوں کو جگاکر ہوشیار فرمادیتے تھے۔‘‘ (متفق علیہ)۔
لیلۃ القدر کی علامات
لیلۃ القدر کی بعض نشانیاں علماء نے بیان کی ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ کی روایت میں ہے کہ یہ رات کُھلی ہوئی، چمک دار، صاف، شفّاف ہوتی ہے، نہ زیادہ گرم، نہ زیادہ ٹھنڈی، بلکہ بھینی بھینی اور معتدل ہوتی ہے۔ اس مقدّس رات کے انوار و برکات کے باعث چاند کُھلا ہوا ہوتا ہے، اس رات شیطانوں کو ستارے نہیں مارے جاتے، آسمانوں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے میں آنکھوں میں نور اور دل میں سرور کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
نیز، ایک علامت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اُس رات کے بعد والی صبح کے سورج میں تیزی نہیں ہوتی۔ بڑی علامت یہ ہے کہ اُس رات میں عبادت کرنے کی توفیق نصیب ہو، عبادت میں کیفیت پیدا ہو، خشوع و خضوع اور خلوص ہو۔ (بحوالہ، تحفۃ الصیام)۔
لیلۃ القدر کے معمولات
جس بندے کو ’’لیلۃ القدر‘‘ نصیب ہو اور وہ اس کے باوجود توبہ و مناجات، طلب مغفرت اور عبادت سے محروم رہ جائے، اس سے بڑا کوئی محروم نہیں ہوسکتا، حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک کی آمد پر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے، جو ایک ہزار مہینے سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا،وہ ساری خیر سے محروم رہا اور محروم کے علاوہ کوئی شخص اس خیر سے محروم نہیں ہوسکتا۔‘‘ (مشکوٰۃ1؍173)
’’لیلۃ القدر‘‘ میں کوئی باقاعدہ عبادت شریعت اور سنّت سے ثابت نہیں ہے، البتہ تلاوتِ قرآن، نوافل کی ادائی، توبہ و استغفار، درود شریف، دُعا و مناجات اور اوراد واذکار میں مشغول رہتے ہوئے شب بے داری میں مصروف رہنا چاہیے۔ اس مقدّس رات کی عبادت کا ثواب حاصل کرنے کی تمنّا ہر مسلمان کے دل میں ہونی چاہیے، لہٰذا بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ لیلۃ القدر کا کوئی بھی لمحہ غفلت میں نہ گزرے۔ شبِ قدر کے حصول کا سب سے بہترین اور موثر ذریعہ ’’اعتکاف‘‘ ہے، جو بندہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کی سعادت حاصل کرلے، وہ یقینی طور پر لیلۃ القدر اور اس کے اجر و ثواب کو پالے گا۔ شب قدر کے حصول کے لیے ’’اعتکاف‘‘ سے زیادہ حتمی اور یقینی ذریعہ اور کوئی نہیں ہے۔
اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ مَیں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ ’’یارسول اللہﷺ! اگر مجھے لیلۃ القدر نصیب ہوجائے، تو میں کیا کلمات ادا کروں؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا۔ ’’یہ دُعا کرو۔ ’’اللّٰھُمّ انّک عفو تُحبُّ العفو فاعفُ عنّی۔ ‘‘ ترجمہ:’’اے اللہ، آپ بہت معاف فرمانے والے ہیں اور معافی کو پسند فرماتے ہیں، اس لیے مجھے بخش دیجیے۔‘‘ شبِ قدر کا آخری حصّہ تجلّیاتِ الٰہی کے متوجّہ ہونے کا خاص وقت ہے۔
یہ توبہ و مناجات، دُعا اور طلبِ مغفرت کے قیمتی لمحات ہیں ’’توبہ‘‘ اسلام کی بڑی عظیم دین ہے، دل کی سچّی ندامت اور آئندہ کے لیے گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد، توبہ کی حقیقت ہے، ایسی توبہ، بندگانِ خدا کو گناہوں کے مہلک اثرات سے اس طرح پاک و صاف کردیتی ہے، جیسے اُس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو، نبی صادق و امینﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔ ترجمہ:’’گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے، گویا اُس نے گناہ کیا ہی نہیں۔‘‘
رسولِ اکرمﷺ کا ایک اورارشاد گرامی ہے۔ ’’بے شک، توبہ کا ایک دروازہ ہے، جو اتنا بڑا ہے کہ اس کے دونوں کواڑوں کے درمیان مشرق و مغرب جتنا فاصلہ ہے، جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوتا، تب تک یہ دروازہ بند نہ ہوگا۔‘‘ (طبرانی؍ المعجم الکبیر)
البتہ علماء نے قرآن و حدیث کی روشنی میں توبہ کی قبولیت کے لیے چند شرائط ذکر کی ہیں۔(1) یہ کہ وہ گناہ سے فوراً باز آجائے۔(2) کیے ہوئے عمل (گناہ) پر اسے ندامت ہو۔(3) مصمّم ارادہ کرے کہ آئندہ یہ فعل انجام نہیں دوں گا۔(4) اگر کسی پر ظلم کیا ہے، یا اس کے ذمّے کسی مظلوم کا حق ہو، تو اسے چاہیے کہ اسے معاف کروالے یا اس کا حق ادا کردے۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ ’’بے شک، اللہ عِزّوجل رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے،تاکہ دن کا گناہ گار توبہ کرلے (تاکہ وہ اسے قبول فرمالے) اور دن میں اپنا مبارک ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کا گناہ گار توبہ کرلے (اللہ تعالیٰ ایسا جاری رکھے گا) یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔‘‘ (نووی؍ شرح صحیح مسلم)۔
توبہ اور گناہوں پر ندامت کا اظہار لیلۃ القدر کی شب بے داری کا بہترین عمل ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ترجمہ:’’آپﷺ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جو اپنی جانوں پر (گناہ کرکے) زیادتی کر بیٹھے ہیں، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا، بے شک، اللہ تعالیٰ سب گناہ معاف فرمادیتا ہے، یقیناً وہی بڑا بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الزمر)۔البتہ توبہ کے لیے اظہارِ ندامت اور ’’توبۃ النصوح‘‘ (سچّی توبہ) ہونا ضروری ہے۔ بقول حضرت مجذوبؒ؎ تحیّر، یاس، سوزش، گریہ، نالہ، آہ، غم، حسرت.....بہلتا ہے انہی آٹھوں سے دل آٹھوں پہر اپنا۔
اللہ کی ذات تو بڑی بندہ نواز ہے، اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، وہ تو گناہوں کی پردہ پوشی کرنے والا، بندوں کے لیے جائے پناہ، بہت زیادہ معاف کرنے والا، درگزر کرنے والا، بندوں کی توبہ قبول کرنے والا اور بندے کے اس عمل سے راضی اور خوش ہونے والا ہے۔
شرط صرف اعترافِ بندگی اور اظہارِ ندامت کی ہے، بقول اقبال؎ نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی، تو کہاں ملی.....مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں۔ موجودہ حالات میں ہر شخص مضطرب، پریشان اور بے چین نظر آتا ہے، ملک و ملّت کو آج بے پناہ مسائل کا سامنا ہے، ایسے میں ہماری تکالیف، پریشانیوں اور دُکھوں کا علاج صرف اور صرف اس پیغام ِرشد و ہدایت کی پیروی میں پوشیدہ ہے، جو سراسر خیر اور سلامتی پر مبنی ہے۔ اسی نسخۂ کیمیا، قرآنِ کریم کے اتّباع اور پیروی میں انسانیت کے لیے امن اور سلامتی کا راز پوشیدہ ہے۔ جو خیر اور سلامتی کی بابرکت شب میں رحمۃ لّلعالمینﷺ پر نازل ہوا۔